یوتھ ایڈووکیٹس اگینسٹ ٹوبیکو کے نمائندگان نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل کو سگریٹ نوشی سے بچانے کے لیے مضبوط سیاسی عزم، تمباکو پر زیادہ ٹیکس، اور مسلسل عوامی شمولیت ناگزیر ہے۔”تعلیمی ادارے نوجوانوں کو تمباکو سے پاک ماحول فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مثبت سرگرمیوں اور آگاہی مہمات کے ذریعے ہم ایسی ثقافت تشکیل دے سکتے ہیں جہاں تمباکو کا استعمال قابل قبول نہ ہو۔” انہوں نے ان خیالات کا اظہار پاکستان میں تمباکو نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف مؤثر اقدام کے طور پر، سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) نے یوتھ ایڈووکیٹس اگینسٹ ٹوبیکو (YAAT) کلبز کے اشتراک سے ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے 2025 کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کا مقصد نوجوانوں کو تمباکو کے نقصانات سے بچانا اور نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کی ابتدا کو روکنے کے لیے تمباکو پر ٹیکس میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرنا تھا۔ یہ تقریب نوجوانوں کے لیے ایک متحرک پلیٹ فارم ثابت ہوئی، جہاں انہوں نے تقاریر، فلموں، تصویروں، خاکوں، ریپ گانوں، اور پوڈکاسٹ کے ذریعے تمباکو انڈسٹری کی نوجوانوں کو نشانہ بنانے والی پالیسیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ ان تخلیقی کاوشوں کے ذریعے یہ واضح پیغام دیا گیا کہ تمباکو کا استعمال پاکستان کے نوجوانوں کو درپیش سب سے بڑا خطرہ ہے، کلب کے ایک نمائندے نے کہا کہ
“ہم اپنی آواز اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے ان خاموش آوازوں کو بلند کر رہے ہیں جو تمباکو کی وجہ سے متاثر ہوئیں۔ ہماری پرفارمنس اعداد و شمار کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقی کہانیوں کو بیان کرتی ہے اور فوری اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ ہماری نسل کو محفوظ رکھا جا سکے۔” قبل ازیں سپارک کے پروگرام مینیجر، ڈاکٹر خلیل احمد دوگر نے تمباکو کے صحت اور معیشت پر پڑنے والے تباہ کن اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ “تمباکو ہر سال 160,000 سے زائد اموات کا سبب بنتا ہے اور ہماری صحت کی سہولیات پر بوجھ ڈالتا ہے۔ ٹیکس میں اضافہ ایک زندگی بچانے والا قدم ہے—خاص طور پر نوجوانوں کے لیے۔”
انہوں نے مالی سال 2025–26 کے لیے فی سگریٹ پیکٹ پر 39 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) بڑھانے کی تجویز دی۔ ان کے مطابق، مالی سال 2024–25 میں ایف ای ڈی ریونیو میں صرف 4 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ اسی عرصے میں مہنگائی کی شرح 26 فیصد رہی۔ سگریٹ کی مجموعی پیداوار میں 22 فیصد اضافہ ہونے کے باوجود آمدنی میں کمی اس وجہ سے ہوئی کہ تمباکو کمپنیاں کم ٹیکس والے ’اکانومی برانڈز‘ کی طرف منتقل ہو گئیں، جو اب پیداوار کا 95 فیصد بناتے ہیں، جبکہ گزشتہ سال یہ 87 فیصد تھے۔ ڈاکٹر خلیل نے مزید کہا کہ “یہ کہنا کہ ریونیو میں کمی کی وجہ صرف غیر قانونی تجارت ہے، ایک گمراہ کن بیانیہ ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ تمباکو کمپنیاں ٹیکس سے بچنے کے لیے دانستہ حربے استعمال کر رہی ہیں، جیسے کہ نئے ٹیکس لاگو ہونے سے پہلے مہنگے برانڈز کو ذخیرہ کرنا اور انہیں غلط طریقے سے ’اکانومی‘ زمرے میں ظاہر کرنا۔ مثال کے طور پر، پاکستان ٹوبیکو کمپنی نے بینسن اینڈ ہیجز کا نرخ 70 فیصد سے زائد کم کر دیا، جس سے حکومت کو تقریباً 2.4 کروڑ ڈالر کا ٹیکس نقصان ہوا۔ اس موقع پر پنجاب گروپ آف کالجز کے ڈائریکٹر، چوہدری محمد اکرم نے کہا کہ “تعلیمی ادارے نوجوانوں کو تمباکو سے پاک ماحول فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مثبت سرگرمیوں اور آگاہی مہمات کے ذریعے ہم ایسی ثقافت تشکیل دے سکتے ہیں جہاں تمباکو کا استعمال قابل قبول نہ ہو۔” تقریب کے دوران ان افراد کو بھی سراہا گیا جنہوں نے تعلیم، میڈیا، سول سوسائٹی اور نوجوانوں کے شعبوں میں تمباکو کے خلاف نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی مشترکہ کاوشیں اس بات کی علامت ہیں کہ پاکستان کے نوجوانوں کو بچانے کے لیے مضبوط سیاسی عزم، تمباکو پر زیادہ ٹیکس، اور مسلسل عوامی شمولیت ناگزیر ہے
Comments are closed.