نان چھانگ – چین میں ثقافتی تبادلے کی نئی مثال قائم کرتے ہوئے پاکستانی طالب علم عبدالسمیع نے ڈریگن بوٹ فیسٹیول میں نمایاں کردار ادا کیا، جس میں دنیا بھر سے 50 ٹیموں کے 1,500 سے زائد کھلاڑی شریک تھے۔ دریائے گان کے دھند آلود پانیوں پر، سمیع کی قیادت میں سوژو یونیورسٹی کی ٹیم نے اپنی قوت اور ہم آہنگی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔
عبدالسمیع، جو کہ 2023 میں پی ایچ ڈی کے لیے چین آئے، اب دوسری مرتبہ نان چھانگ انٹرنیشنل ڈریگن بوٹ مقابلے میں شریک ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین آنے سے پہلے وہ اس روایت سے ناآشنا تھے، لیکن اب ڈریگن بوٹ فیسٹیول اور اس کے پیچھے موجود چینی شاعر چو یوآن کی کہانی ان کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔
ان کا یہ شاندار سفر اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے یونیورسٹی میں “بین الاقوامی چپو بازوں” کے لیے بھرتی کا ایک پوسٹر دیکھا۔ کھیلوں سے محبت نے انہیں کشتی رانی کی طرف مائل کیا، اور پھر وہ نہ صرف جسمانی تربیت کا حصہ بنے بلکہ چینی ثقافت سے بھی قریب ہوئے۔
چینی کوچ لی شِن کا کہنا ہے کہ یہ دوڑ صرف ایک کھیل نہیں بلکہ ایک ثقافتی تبادلہ ہے، جہاں بین الاقوامی طلبہ مقامی تاریخ اور روایت کو سیکھ کر دوسروں کو سکھاتے ہیں۔ سمیع نے نہ صرف نان چھانگ بلکہ آنہوئی، ہیبے اور برف پوش جھیلوں پر بھی مقابلوں میں شرکت کی، یہاں تک کہ منفی 15 ڈگری سینٹی گریڈ میں بھی انہوں نے آئس ڈریگن بوٹ ریس میں حصہ لیا۔
منتظمین نے طلبہ کو مفت سازوسامان، تربیت اور رہائش فراہم کی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ یونیسکو کے تسلیم شدہ اس غیر مادی ثقافتی ورثے سے متعارف ہو سکیں۔ 2009 میں ڈریگن بوٹ فیسٹیول کو یونیسکو کی ثقافتی ورثہ فہرست میں شامل کیا گیا تھا، جو چین کا پہلا عالمی سطح پر تسلیم شدہ تہوار بن گیا۔
عبدالسمیع نے کہا،
“ڈریگن بوٹنگ کی اصل روح ٹیم ورک ہے، ساتھیوں پر اعتماد، ہم آہنگی، اور تھکن کے باوجود مسلسل کوشش۔ جب اختتامی لائن عبور کرتے ہیں اور تماشائی خوشی سے شور مچاتے ہیں، تو وہ ایک ایسی ‘چینی یادگار’ بن جاتی ہے جسے میں زندگی بھر سنبھال کر رکھوں گا۔”
یہ خبر اس بات کا ثبوت ہے کہ تعلیم کے ساتھ ثقافتی روابط کیسے عالمی سطح پر دوستی، امن، اور ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
Comments are closed.