ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاوں میں ایک غریب لڑکا احمد رہتا تھا، اسے علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ وہ دن کو اپنے استاد کے پاس جا کر سبق پڑ ھتا اور رات کو اسے یاد کرتا اور اس وقت تک نہ سوتاجب تک سبق یاد نہ ہوجائے ۔ اس کی چارپائی کے سرہانے ایک مٹی کا دیا جلتا رہتا جس کی روشنی میں وہ ساری ساری ر ات پڑھتا رہتا۔
ایک رات احمد پڑھ رہا تھا کہ دئیے کی روشنی مدھم ہونے لگی اور پھر دیا بجھ گیا۔اس نے دیکھا تو دئیے میں تیل ختم ہوچکا تھا، احمد پریشان ہو گیا کہ اب کیا کروں گا، آدھی رات کو تیل کہاں سے ملے گا؟ شہر کی دکانیں بند ہو چکی ہیں اور کھلی بھی ہوں تو فائدہ نہیں ؟ کیونکہ اس کے پاس تو پیسے تھے ہی نہیں ؟ غربت کی وجہ سے کھاناوہ کبھی کسی کے گھر تو کبھی گاوں میں موجود ایک مزار کے لنگر خانے سے کھا لیتا۔محلے کے ایک بچے کو پڑھاتا اور اس سے جو معمولی رقم ملتی اس سے اپنے لیے تیل اور کپڑے خرید لیتا، اس بار اسے جو پیسے ملے تھے وہ پہلے ہی خرچ کر چکاتھا۔ یوں دیابجھ جانے پر وہ بہت دکھی ہوگیا۔
وہ اپنے گھر سے نکل کر دروازے پر بیٹھا کہ کہیں کوئی روشنی نظر آ جائے جس کے نیچے بیٹھ کر اپنا سبق مکمل کر سکے لیکن ہر طرف اندھیر اتھا۔ اد ھر ادھر دیکھنے پر اسے دور ایک دیورا پر ہلکی سے روشنی کی ایک لیکر نظر آئی ، یہ دیکھتے ہی وہ اس روشنی کی طرف چل پڑا، قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص ہاتھ میں ایک چھوٹی سی ٹارچ اٹھائے چل رہاہے ، وہ اس گاوں کا چوکیدار تھا۔
ا حمد نے چوکیدار کو بہت ادب سے سلام کیا اور پھر اسے سارا ماجرا بتایاکہ وہ یہاں کیوں آیا؟اس نے چوکیدار سے کہاکہ اگر وہ اجازت دے تو اس ٹارچ کی روشنی میں وہ آج کا اپنا سبق مکمل کرلے ۔ چوکیدار کو معلوم تھا کہ احمد ایک بہت محنتی لیکن غریب بچہ ہے اس لیے اس نے کہاکہ وہ تھوڑی دیر ادھر رُکے گا،تم اپنا سبق پڑھ لو لیکن میں زیادہ دیر یہاں نہیں رُک سکتا کیونکہ اسے پورے گاوں کا چکر لگانا ہے کہ کہیں کوئی چوری نہ ہو جائے ۔
احمد نےکچھ سبق پڑھا لیکن مکمل نہ ہوسکا، اب جب چوکیدار جانے لگا تو وہ بھی اس کے ساتھ ہوگیا اور کہاکہ آ پ چلتے جائیں میں آپ کے ساتھ چلتے ہوئے پڑھتا رہوں گا ، چوکیدار مان گیا اور احمد اس کے پیچھے رات گئے تک گاوں میں چلتا اور پڑھتا رہا اور صبح ہونے سے پہلے واپس اپنے گھر لوٹ گیا۔ اب احمدکے پاس اس ماہ تیل خریدنے کے پیسے نہیں تھے تو وہ روزانہ رات کو اپنی کتاب لیکر چوکیدار کے پاس آجاتا اور اس کے پیچھے پیچھے چلتا اور سبق یاد کرتا رہتا، کچھ دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا پھر چوکیدار نے اس بچے کی علم حاصل کرنے کی لگن دیکھ کراسے خوشخبری سنائی کے آج کے بعد یہ ٹارچ میں تمھیں تحفے میں دیتا ہوں ، اب تمھیں میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں، تم گھر میں ہی بیٹھ کر اس کی روشنی میں پڑھ لیا کرو۔
احمدکو تو جیسے بہت بڑا ا نعام مل گیااور وہ خوشی سے اچھلنے لگا۔جب تک اسے تیل کےلیے پیسے ملتے اس نے ٹارچ سے پڑھائی شروع کر دی اوراب اسے جب تیل ختم ہوتا تو ٹارچ استعمال کرتا۔ دن مہینوں اور مہینے سال میں بدل گئے اور وہ محنتی لڑکا پڑھائی کرتے کرتے خود ایک استاد بن گیا، اب وہ نہ صرف اپنے گاوں کے بچوں کو پڑھاتا بلکہ دوسرے گاوں کے بچے بھی اس کے پاس پڑھنے آتے ، وہ دن کو غریب بچوں کو مفت پڑھاتا اور شام کو امیر لوگوں کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا جس سے اسے معقول آمدن ہوجاتی جس کا بڑا حصہ وہ غریب بچوں پر خرچ کر دیتا کیوں کہ وہ اپنا وقت بھولا نہیں تھا۔
احمدکے بہترین اور لائق استاد ہونے کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ، وہ پڑھانے کے ساتھ خود بھی تعلیم کی منازل طے کرتا رہا اوربالا آخر گاوں کے سرکاری اسکول میں استاد تعینات ہوگیا۔ اب وہ اپنے علم کی روشنی ہرطرف پھیلا رہا تھا اور پھر ایک وقت آیا کہ اس کے گاوں کے بچےاس کی محنت سے پڑھ لکھ کراعلیٰ عہدوں پر فائز ہوگئے اور اس کا گاوں پڑھے لکھے لوگوں کا گاوں کہلانے لگا۔ یوں احمد کو اپنی محنت کا دوہرا پھل ملا، وہ اسکول میں استاد بھی تعینات ہو گیااور پورے گاوں کا سب سے عزت دار شخص بھی بن گیا۔ اب اس گاوں کا ہر پڑھا لکھا نوجوان اپنی کامیابی استاد احمدکے نام کرتاہے ۔
Comments are closed.