یونیورسٹی آف پونچھ آزادکشمیر۔۔۔بہت کچھ اچھا بھی ہو رہاہے

تحریر: عمران اعظم

یونیورسٹی آف پونچھ آزادکشمیر، ملک کے دیگر تعلیمی اداروں کی طرح اکثر اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنی رہتی ہے ۔ ماضی کی طرح اس بار بھی نئے وائس چانسلر کی تعیناتی کو لیکر اخبارات میں آئے روز خبریں چھپ رہی ہیں۔ سرچ کمیٹی پر بھی ا عتر اضات عائد کیے جا رہے ہیں، بلاشبہ میڈیا کو واچ ڈاک کی حیثیت اداروں کی کارکردگی پر ہمہ وقت نظر رکھنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ضروری ہے کہ حقائق کبھی بھی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے پائیں۔

 ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ ہے کہ ہم صحافی ہوں یا عام شہری ، چیزوں کو صر ف بلیک اینڈ وائیٹ میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، سب اچھا یا کچھ بھی اچھا نہیں، یہ طرز عمل درست نہیں، اداروں کی خامیوں کی ہر ممکن نشاندہی کیساتھ ا چھے کاموں کی ستائش بھی اداروں اور ان کی بہتری کے لیے توانائیاں بروئے کار کرنے والوں کا استحقاق ہے ۔جامعہ پونچھ کے نئے وائس چانسلر کی تقرری کے لیے سرچ کمیٹی بنائی گئی تو 2015 کی طرح ایک بار پھر ہر طرف شور و غل شروع ہو چکا اور دانستہ طور پر اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کیا واقعی سر چ کمیٹی بنانے میں قواعد کی خلاف ورزی کی گئی؟ اس حوالے سے جاننے کی کوشش کی تو علم ہوا کہ ایکٹ کیساتھ رولز میں بھی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تعیناتی کے حوالے سے طریقہ کار بالکل واضح ہے ۔

یونیورسٹی ایکٹ اور رولز کے مطابق سینیٹ کا اجلاس منعقد ہو گا اور سات ممبرز پر مشتمل سرچ کمیٹی بنائی جائے گی جو نئے وائس چانسلر کے لیے موزوں امیدواروں کی تلاش کے بعد حتمی سفارشات مرتب کرے گی ۔سرچ کمیٹی کے وہ سات ممبران کون لوگ ہوں گے، ان کی تشریح اور کمیٹی میں رکھنے کا طریقہ کاربھی مکمل طور پر موجود ہے۔ایکٹ کے مطابق میں دو ممبرز سینیٹ سے لیےجائیں گے اور دو ممبرز سول سوسائٹی سے لینا لازم ہے ، دو ممبرز ایسے پروفیسرز ہوں گے جن کااس یونیورسٹی سے تعلق نہ ہو جس کے لیے وائس چانسلر کی تعیناتی درکار ہے اور نہ ہی وہ سینیٹ کے ممبرہوں گے ۔ سرچ کمیٹی کاایک ممبربین الاقوامی اور اچھی شہرت کا حامل ایک پروفیسر ہو گااور وہ کم سے کم ایک مدت کے لیے کسی پبلک سیکٹر یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی رہ چکاہو۔

 مزید براں سول سوسائٹی کے ممبران کے لیے بھی چھ ناموں پر مشتمل ایک پینل صدر ریاست کے دفتر کی جانب سے سینیٹ کو بھیجا جائے گا اور سینیٹ اس میں سے دو ممبران کا سرچ کمیٹی کے لیے انتخاب کرے گی، اس طرح یونیورسٹی کے دو پرفیسرز اور سابق وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے بھی پورا پینل سینیٹ کو بھیجا جاتاہے جس کےبعد ان میں سے انتخاب کیاجاتاہے۔ اس سب کےساتھ نئے وائس چانسلر کی اہلیت کو جانچنے کے لیے 100 نمبرز رکھے گئے ہیں جن میں سے 70نمبر امیدوار کے پروفائل یعنی اس کی اہلیت ،تجربے اور اس کے ماتحت نئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد سمیت دیگر قابلیت کے ہیں۔یوں اب یونیورسٹی آف پونچھ کے نئے وائس چانسلر کی تقرری کے لیے جو سرچ کمیٹی بنائی گئی ہے اگر وہ ان رولز سے ہٹ کر بنائی گئی ہے تو اس پر اعتراض ہوسکتا ہے لیکن اگر ایسا نہیں تو ہمیں اسے خوامخواہ متنازع بنانے سے اجتناب کرنا چاہیے ،سرچ کمیٹی کو بھی سو فیصد غیرجانبداری کا مظاہر ہ کرتے ایک بہترین شہرت کے حامل شخص کو یونیورسٹی کا وائس چانسلر منتخب کرنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے یونیورسٹی کے اندر موجود مختلف گروپس کی باہمی چپقلش کے باعث سرچ کمیٹی کو متنازع بنانے کی کو شش کی جا رہی ہے تاکہ 2015 کی طرح ایک بار پھرکسی عارضی وائس چانسلر کو لاکر اپنی من مرضی کے کام لیے جا سکیں۔

 دوسری جانب جامعہ پونچھ کی اب تک کی اور خاص گزشتہ پانچ سال کی کارکردگی کا بھی غیر جانبداری کیساتھ احاطہ ضروی ہے ۔ حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں جائزہ لیں تو مشکل حالات اور کوتائیوں کے باوجود جامعہ پونچھ نے گزشتہ پانچ سال کے دوران کئی اہم سنگ میل عبور کیے ہیں۔2020 میں جامعہ پونچھ میگا پراجیکٹ کے ریوائزڈپی سی ون کے ”فیز ون“کی منظوری یقینا ایک بڑی کامیابی تھی جس میں مالیت 844.914 ملین سے بڑھا کر 1292.727ملین روپے کی گئی۔اس پراجیکٹ میں اکیڈمک بلاک،ایڈمنسٹریشن بلاک،مرکزی لائبریری اور 200طالبات کیلئے گرلز ہاسٹل ،سڑکوں کی تعمیر،مختلف کیمپسز کی چاردیواری، واٹر سپلائی ،ٹرانسپورٹ، لیبارٹریز، آئی ٹی کا سامان ، فرنیچراوردیگر منصوبے شامل ہیں ۔ فیز ون منصوبے پر 75فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور توقع ہے کہ مالی سال کے اختتام تک تمام منصوبے مکمل کر لئے جائیں گے۔مارچ 2021ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے1514.334ملین روپے مالیت کے میگا پراجیکٹ کےفیز ٹوکی منظوری دی۔اس منصوبے کے تحت 2اکیڈمک بلاک،آڈیٹوریم/ملٹی پرپز ہال جبکہ 600طلبہ کیلئے تین ہاسٹلز کی تعمیر شامل ہے جبکہ زلزے سے متاثر پرانے کیمپس کی مرمت بھی کی جائے گی ۔ اس ضمن میں کنسلٹنٹ کو ہائر کر دیا گیا جبکہ ٹینڈرنگ کا پراسس بھی مکمل ہو چکا ہے۔منصوبے کی تکمیل سے جامعہ پونچھ کی ضروریات بڑی حد تک پوری ہو سکیں گی۔

یونیورسٹی کے چھوٹا گلہ کیمپس کی تعمیر میں غیر معمولی تاخیر سے تدریسی و تحقیقی سرگرمیوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ،2010ء میں 1233.929ملین روپے کی لاگت کے اس منصوبے کی منظوری ایکنک نے دی۔کویت فنڈ کے تعاون سے اس منصوبے کا انتظام ایرا کے پاس ہے، 10سال کے دوران ایرا نے چار مرتبہ ٹینڈر کرائے لیکن بدقسمتی ہے کا م پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا جا سکا۔اکتوبر 2019ء میں جامعہ پونچھ کی انتظامیہ نے حکومت آزاد کشمیر،ایرااور اکنامک افیئرڈویثر ن کی توجہ منصوبے کی سست رفتاری اور جامعہ کی مشکلات کی جانب مبذول کرائی۔اس سلسلے میں ڈونر ایجنسی نے جامعہ پونچھ کی تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے منصبوبہ جامعہ پونچھ کے حوالے کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔اکنامک افیئرڈویثرن کی تجویز پر جامعہ پونچھ منصوبے کا ”ریوائزڈ پی سی ون“ بھی جمع کرا چکی ہے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ٹیم نے اپنے دورے کے موقع پر جامعہ پونچھ کی تجاویز سے مکمل اتفاق کیاہے ۔ اس سلسلہ میں چیئر مین این ڈی ایم اے/ایرا اور دیگر متعلقہ اداروں کیساتھ متعدد اجلاس بھی ہو چکے ہیں۔توقع ہے کہ اب حکومت آزادکشمیر چھوٹا گلہ کیمپس کی تعمیر کی ذمہ داری خود اٹھائے گی۔

 

 کورونا وباءکے دوران آن لائن کلاسز کو ممکن بنانے کے لیے تیز ترین اور بلاتعطل انٹرنیٹ کی فراہمی ناگزیر تھی جس کیلئے ایچ ای سی سے جامعہ کیلئے جدید ترین ”پرن انٹرنیٹ،، سروس حاصل کی گئی ۔ یونیورسٹی طلباء کے لیے ایک بڑی پریشانی مختلف ڈیپارٹمنٹس کی ایگری ڈیشن کا نہ ہونا تھا اور اس لیے کئی احتجاج بھی ہوئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے مسلسل کوششوں سے شعبہ کمپیوٹر سائنسز و انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایگریڈیشن ،نیشنل کمپیوٹنگ ایجوکیشنل ایگریڈیشن کونسل سے حاصل کی جبکہ پاکستان انجینئرنگ کونسل نے جامعہ پونچھ کے شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ کو لیول ٹو پر رجسٹر کیا۔جامعہ پونچھ کا شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ آزاد کشمیر کی جامعات میں وہ واحد شعبہ ہے جو پاکستان انجینئرنگ کونسل کے لیول ٹو پر رجسٹر ہےجبکہ شعبہ ویٹرنری اینڈ انیمل سائنسز،فارمیسی اور ایگریکلچر کے مختلف شعبوں کی ایگریڈیشن بھی حاصل کی گئی۔ اس کے ساتھ بیسک سائنسز میں بائیو ٹیکنالوجی،مائیکرو بیالوجی جبکہ ایگریکلچر میں ہیومن نیوٹریشن اور انوائرنمنٹل سائنسز کے شعبوں کا آغاز بھی کیا گیا۔ یہی نہیں جامعہ پونچھ کے لیے پاکستان سائنس فاؤنڈیشن اور پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل سے 111ملین روپے مالیت کے 18پراجیکٹس بھی حاصل کیے گئے۔

جامعہ پونچھ کے کہوٹہ حویلی کیمپس کا آغاز بھی گزشتہ پانچ سالہ دور میں ہوا جس میں ”بی ایس کمپیوٹر سائنس،بی ایس انگلش،بی ایس میتھا میٹکس اور بی ایس ایجوکیشن“کے پروگرام شروع ہوئے۔جامعہ پونچھ کے منگ کیمپس کیلئے زمین حاصل کی گئی جس میں بی ایس انگلش اور ایجوکیشن کے پروگراموں کا آغاز کیا گیا۔گزشتہ پانچ سال میں 99فیکلٹی ممبران کی تعیناتی عمل میں لائی گئی جن میں سے 70فیکلٹی ممبران ”پی ایچ ڈی“ڈگری ہولڈرہیں۔ اس دوران جامعہ پونچھ میں قومی سطح کی 10ورکشاپس،ایک قومی کانفرنس جبکہ ایک انٹر نیشنل کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا۔انٹر نیشنل کانفرنس میں ترکی،انڈونیشیاء سمیت دیگر ممالک کے اسکالرز نے شرکت کی جبکہ بانی صدر آزاد کشمیر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی برسی کے سلسلہ میں منعقدہ”غازی ملت کانفرنس“ میں یورپی یونین کے وفد نے بھی شرکت کی۔ ترکی میں منعقدہ دنیائے اسلام کے عالمی وائس چانسلر فورم میں آزاد کشمیر کی نمائندگی بھی جامعہ پونچھ کے حصے میں آئی جو یقینا ایک اعزاز ہے۔

 ان اعداد و شمار کے بیان کرنے کا مقصد صر ف اتنا ہے کہ یونیورسٹی آف پونچھ نے اب تک جو کچھ حاصل کیا ،اس سفر کو تیزی کیساتھ جاری رہنا چاہیے اور اس میں کسی بھی طرح کا تعطل نہیں آنا چاہیے ۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رسول جان نے غیر جانبداری کیساتھ پانچ سال ہمارے اس ادارے کی بہتری کے لیے اپنے نام اور ساکھ کو استعمال کرتے ہوئے توانائیاں صرف کیں، وہ اس سے قبل جامعہ پشاور اور مالاکنڈیونیورسٹی جیسے اداروں کے وائس چانسلر بھی رہے ۔اعلیٰ تعلیم کے میدان میں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ”پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز“ کےا عزازات سے بھی نواز جا چکا ہے۔ ادارے بنا نا اگرچہ آسان نہیں لیکن انہیں اپنے پاوں پر کھڑا کرنا زیادہ مشکل اور کٹھن مرحلہ ہوتاہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے موزوں شخصیت کا بطور سربراہ مل جانا غنیمت۔اب جب کہ غلام رسول جان بحیثیت وائس چانسلر پونچھ یونیورسٹی اپنی مدت احسن طریقے سے مکمل کرتے ہوئے رخصت ہو رہے ہیں تو جامعہ پونچھ کے لیے ان کی بے لوث خدمات کو سراہاجانا چاہیے تاکہ اہلیان راولاکوٹ کا حسن سلوک انہیں تادیریاد رہے۔

Comments are closed.