پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا، پنڈی ٹیسٹ بے نتیجہ: کیا یہ پچ کسی خوف کی وجہ سے ’مردہ‘ تھی؟

اسلام آباد : آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کو 24 سال کے طویل انتظار کے تناظر میں غیر معمولی اہمیت دی گئی اور دینی بھی چاہیے تھی کیونکہ دنیا کی نمبر ایک ٹیسٹ ٹیم کو پاکستانی سرزمین پر کھیلتا دیکھنے کے لیے شائقین کی بے صبری انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس جوش وخروش کا اندازہ پنڈی ٹیسٹ کے پانچوں دن سٹیڈیم میں بڑی تعداد میں شائقین کی موجودگی اور ان کے ہاتھوں میں موجود مختلف خیرمقدمی اور دلچسپ پلے کارڈز دیکھ کر بخوبی ہوگیا۔

ٹیسٹ کرکٹ دیگر دو فارمیٹس سے یکسر مختلف ہے۔ اس میں شائقین کی دلچسپی اس وقت تک موجود رہتی ہے جب تک میدان میں دلچسپ کرکٹ ہوتی رہے اور آخر میں نتیجہ بھی برآمد ہو جائے لیکن راولپنڈی ٹیسٹ کے لیے جو پچ تیار کی گئی اس پر میچ کا اختتام یہی ہوسکتا تھا یعنی رنز کی بھرمار کے بعد ڈرا۔

پاکستان کے دورے پر آنے والی آسٹریلوی ٹیم میں پیٹ کمنز، مچل سٹارک اور جوش ہیزل ووڈ کی شکل میں ایک بہترین پیس اٹیک موجود ہے جبکہ نیتھن لائن جیسا ورلڈ کلاس سپنر آسٹریلوی اسلحہ خانے کو مزید خطرناک بنائے ہوئے ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے یہ ایک بڑا سوال تھا کہ اسے کس طرح کی وکٹ تیار کرنی ہے؟ اگر وکٹ تیز رکھنی ہے تو پھر اسے یقیناً اس بات کا اندیشہ ہوگا کہ کیا پاکستانی بیٹسمین آسٹریلوی پیس اٹیک کے سامنے بڑا سکور کرسکیں گے اور اگر سپن وکٹ کی بات تھی تو ذہنوں میں نیتھن لائن بھی موجود تھے۔

آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ کی وکٹ پنڈی کی روایتی وکٹ سے قدرے مختلف رہی کیونکہ ماضی میں اس میدان میں فاسٹ بولرز کی کارکردگی ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ وہ چاہے وسیم اکرم اور وقار یونس ہوں یا محمد زاہد۔

حالیہ دنوں میں حسن علی، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ بھی حریف بیٹسمینوں کے لیے پریشانی کا سبب بن چکے ہیں لیکن آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میں شاہین آفریدی اور نسیم شاہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے اظہار کے باوجود اس وکٹ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے۔ یہی حال آسٹریلوی تیز بولرز کا بھی رہا۔

پنڈی ٹیسٹ کی وکٹ پر یوں تو کئی تبصرے ہوئے ہیں لیکن آسٹریلوی بیٹسمین سٹیو سمتھ کے تبصرے کو اس لیے زیادہ اہم کہا جاسکتا ہے کہ وہ یہ ٹیسٹ کھیلے۔ سمتھ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس پچ کو مردہ اور بے ضرر قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ توقع کر رہے تھے کہ وکٹ بریک ہوگی اور ٹرن لے گی جیسا کہ اس نے شروع میں لیا تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

سوشل میڈیا پر بھی پنڈی کی پچ پر مختلف باتیں پڑھنے کو ملی ہیں تاہم ایک تصویر جو فوکس کرکٹ نے ٹوئٹر پر شیئر کی ہے وہ خاصی دلچسپ ہے۔ اس میں کسی پکی سڑک کی طرح پنڈی کی پچ دکھائی گئی ہے جس کے کنارے پر دو بورڈز ہیں ایک پر لکھا ہے جیوانی 32 کلومیٹر جبکہ دوسرے بورڈ پر درج ہے ’پاک ایران سرحد 31 کلومیٹر‘۔

ایک تماشائی نے سٹیڈیم میں پلے کارڈ کے ساتھ تصویر شیئر کی۔ پلے کارڈ پر درج تھا ʹمیں اپنے گھر کے قریب سڑک کی تعمیر کے لیے آپ کی خدمات حاصل کرنا چاہتا ہوںʹ۔

پاکستان نے پہلی اننگز کی سترہ رنز کی معمولی برتری کے ساتھ اپنی دوسری اننگز شروع کی تو امام الحق اور عبداللہ شفیق ایک بار پھر ٹیم کو 252 رنز کی مضبوط بنیاد فراہم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

پہلی اننگز میں 157 رنز کی عمدہ اننگز کھیلنے والے امام الحق نے ناقابل شکست 111 رنز سکور کیے۔

اس طرح وہ ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے والے دسویں پاکستانی بیٹسمین بن گئے۔ ان دس میں سے چار بیٹسمینوں یونس خان، مصباح الحق، اظہرعلی اور امام الحق نے یہ اعزاز آسٹریلیا کے خلاف حاصل کیا ہے۔

عبداللہ شفیق بھی اپنے تیسرے ٹیسٹ میں پہلی سنچری سکور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ 136 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔

یہ آخری تین ٹیسٹ میچوں کی چھ اننگز میں پاکستانی اوپنرز کی چوتھی سنچری پارٹنرشپ ہے اور ان چاروں میں عبداللہ شفیق شریک رہے ہیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف اپنے اولین ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں عابد علی کے ساتھ 146 اور 151 کی شراکت قائم کی تھی اور اب پنڈی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 105 اور دوسری اننگز میں 252 رنز کی پارٹنرشپ قائم کی ہے جو آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی جانب سے کسی بھی وکٹ کے لیے سب سے بڑی شراکت بھی ہے۔

اس سے قبل 1964 میں خالد عباداللہ اور عبدالقادر (وکٹ کیپر) نے کراچی ٹیسٹ میں پہلی وکٹ ک ے لیے 249 کا اضافہ کیا تھا۔

Comments are closed.