پانچ ججز کی غیرآئینی تعیناتیوں میں صدر آزادکشمیر کا کردارگھناؤناہے،حسن ابراہیم

جموں وکشمیر پیپلزپارٹی کا 10 روز میں چیف جسٹس آزادکشمیر کیخلاف ریفرنس پر پیشرفت نہ ہونے پر احتجاج کا اعلان

مظفرآباد: صدر جموں وکشمیر پیپلزپارٹی سردار حسن ابراہیم خان کا کہنا ہے کہ میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پانچ ججز کی غیرآئینی تعیناتیوں میں صدر ریاست کا کردار بھی گھناؤنا ہے، صدارتی سیکرٹریٹ کی جانب سے عدالت العالیہ آزاد کشمیر میں پیش کیے جانے والاریکارڈ جعلی قرار دیتے ہوئے حسن ابراہیم نے کہا ے کہ 10 روز کے اندرچیف جسٹس آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے خلاف دائر کردہ ریفرنس پر پیش رفت نہیں ہوتی تو جموں کشمیرپیپلزپارٹی بھرپوراحتجاج کا اعلان کرے گی۔

مظفرآباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رکن آزادکشمیر قانون سازاسمبلی اور صدر جموں کشمیر پیپلز پارٹی سردار حسن ابراہیم خان نے کہا کہ سردار خالد ابراہیم خان نے ہمیشہ روایتی سیاست کے خلاف میرٹ وانصاف کی بالادستی کے لئے تاریخ سازجدوجہدکی۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی وہ یہی جدوجہدکرتے رہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے حسن ابراہیم نے کہا کہ 2018 میں جب آزادکشمیر ہائی کورٹ میں پانچ ججزکی تعیناتی کا غیرآئینی اقدام کرتے ہوئے میرٹ کے برخلاف سیاسی کارکن کوجج لگایاگیا توسردارخالدابراہیم خان نے ایوان میں احتجاج کیا تو انہیں غیرآئینی توہین عدالت کانوٹس جاری کیاگیا۔ سردارخالدابراہیم خان کا موقف تھا کہ عدالت کواسمبلی فلورپرکی گئی گفتگوپرنوٹس کااختیارحاصل نہیں۔

انہوں نے کہا کہ سردار خالد ابراہیم خان کی وفات کے بعد ہم نے آئینی راستہ اپناتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے خلاف وزیراعظم پاکستان کے پاس ایک ریفرنس دائرکیا، لیکن ہمارے انتظار کرنے کے باوجود اس ریفرنس کا کوئی جواب نہ آیا۔آج صورتحال یہ ہے کہ آزادکشمیرکے اندر انصاف کا علمبردار ادارہ میرٹ کی پامالیوں اورغیرآئینی اقدامات کامرکب بن چکاہے۔آج چپراسی کی تعیناتی سے لے کرجج کی تعیناتی تک سفارش،اقرباپروری کاکلچرعام ہوچکاہے۔

سردار حسن ابراہیم نے کہا کہ عدلیہ کے اندرہونے والی بے ضابطگیاں غیرآئینی اقدامات اورمیرٹ کی پامالیوں کی تمام تر ذمہ داری آزاد کشمیر کے چیف جسٹس سپریم کورٹ پر عائدہوتی ہے۔ جنہوں نے ریاست کے اس مقدس ادارہ اورآئین کے ساتھ کھلواڑشروع کررکھاہے۔ پانچ ججزکی میرٹ کے خلاف غیرآئینی تعیناتیوں میں صدر ریاست کابھی ایک گھناؤنا کردارہے جس کی واضح مثال یہ ہے صدارتی سیکرٹریٹ کی جانب سے عدالت العالیہ آزادکشمیر میں پیش کیے جانے والاریکارڈجعلی وفرضی ہے۔

 رکن قانون ساز اسمبلی نے الزام عائد کیاکہ عدالت العالیہ نے ججزتعیناتی کیس کے فیصلے کی بنیاد24 اپریل 2018ء کی ایک نام نہاد کال پر رکھی ہے۔ یہ فون کال صدرآزاد کشمیرکے ذاتی موبائل فون سے چیف جسٹس کے ذاتی فون پر کی جانی ظاہرکی گئی ہے۔ اس فون کال کے مطابق دونوں صاحبان کو اسلام آباد میں موجود ظاہر کیا گیاہے جبکہ ریکارڈکے مطابق چیف جسٹس 24 اپریل2018ء کو مظفرآباد میں اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہے تھے۔یہ جھوٹ اورسازش پرمبنی حقیقت ریاست کے عوام کے لئے انتہائی تشویشناک اورہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پربیٹھے ہوئے لوگ کس طرح کے کھیل میں مصروف ہیں۔

سردار حسن ا براہیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن ججزنے ججزتعیناتی کیس کے حوالے سے فیصلہ دیا وہ آئین وقانون کی پاسداری کرنے میں ناکام رہے۔ عدالت فیصلے میں تسلیم کرتی ہے کہ ججزکی تقرری غیرآئینی و غیرقانونی طریقے سے کی گئی اورساتھ ہی حکم بھی جاری کرتی ہے کہ آئندہ کے لئے ایسا نہ کیاجائے لیکن فیصلے کا اطلاق ان پانچ ججز پر نہ کیاجائے۔ حقائق کی بنیادپر یہ سب انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ سردارخالدابراہیم خان کے موقف کی سچائی ہائی کورٹ میں پیش ہونے والے ریکارڈسے ثابت ہورہی ہے۔

صدر جموں وکشمیر پیپلزپارٹی نے کہا کہ وزیراعظم آزادکشمیرنے بھی مظفرآباد بارسے خطاب کے دوران سردارخالدابراہیم خان کے موقف کی مکمل حمایت کی،جموں کشمیرپیپلزپارٹی سردارخالدابراہیم خان کے وژن کے مطابق عدلیہ میں ہونے والی بے ضابطگیوں،میرٹ کے قتل عام،اورغیرآئینی اقدامات کے خلاف کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ اگر دس دن کے اندر چیف جسٹس سپریم کورٹ کے خلاف دائرکردہ ریفرنس کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوتی توجموں کشمیرپیپلزپارٹی بھرپوراحتجاج کااعلان کرے گی۔

سردارحسن ابراہیم خان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ انصاف کے اعلیٰ مسند پر بیٹھا شخص عدلیہ کوتباہی کی طرف لے جارہاہے اورایسے ماحول میں عام آدمی کے لئے انصاف کاحصول ناممکن نظرآرہاہے۔ جموں کشمیرپیپلزپارٹی یہ سمجھتی ہے کہ پانچ ججزکی تعیناتی غیرآئینی وغیرقانونی طریقے سے کی گئی اوراس کی تمام ذمہ داری عدلیہ کے اعلیٰ ترین عہدہ پربیٹھے شخص پرعائدہوتی ہے۔حکومت آزاد کشمیر، صدر ریاست سب اس میں برابرکے شریک ہیں اور سب ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

Comments are closed.