باغ (خصوصی رپورٹ) — آزاد جموں و کشمیر کے ضلع باغ میں عوامی و سماجی حلقوں کی جانب سے حالیہ حکومتی معاہدے پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ معاہدے میں شامل بیشتر منصوبے صرف میرپور، ڈڈیال اور دیگر مخصوص اضلاع کے لیے رکھے گئے ہیں، جب کہ باغ جیسے ضلع کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
مقامی رہنماؤں اور شہریوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے باغ کے عوام کو محض واٹر سپلائی کے “لالی پاپ” سے بہلانے کی کوشش کی ہے، جب کہ حقیقت میں یہ اسکیم بھی مخصوص خاندانوں، اشرفیہ اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے لیے بنائی گئی ہے۔ عوامی نمائندوں نے سوال اٹھایا کہ پہلے سے موجود اسکیموں کا دائرہ صرف بااثر طبقوں تک کیوں محدود رکھا گیا ہے۔
ایک مقامی سماجی کارکن شیخ محسن عزیز اور سیز پاکستانی کشمیری نے کہا کہ، “پورے ضلع باغ کو پچھلے چند دنوں سے بدامنی کی کیفیت میں کیوں ڈالا گیا؟ کیا کسی کے پاس اس کا جواب ہے؟”
انہوں نے مزید کہا کہ معاہدے میں 12 نشستوں کا کوئی ذکر نہیں، نہ ہی “آزاد پتن ” اور “دھلکوٹ روڈ” کی تعمیر کے حوالے سے کوئی واضح شق شامل ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے — خصوصاً مغربی اور وسطی باغ کے شہداء — ان کی قربانیوں کو معمولی معاوضوں، چند نوکریوں اور زخموں کی قیمت کے عوض نظرانداز کر دینا قومی لیڈرشپ کی کمزوری ہے۔
ان کا کہنا تھا، “یہ کس قسم کی قیادت ہے جو عوام کے لہو پر مذاکرات کرتی ہے؟ یہ وہ خطرناک روایت ہے جو ہم اپنی نئی نسل کو سکھا رہے ہیں — کہ اپنے مفادات کے لیے اپنے ہی لوگوں کو قربان کر دو۔”
بیان میں کہا گیا کہ باغ کے لوگ اپنی بہادری، قابلیت، عاجزی اور حقیقت پسندی کے لیے جانے جاتے ہیں، لیکن موجودہ معاہدے نے ان کے اعتماد کو سخت دھچکا پہنچایا ہے۔
عوامی ردعمل میں یہ نکتہ بھی سامنے آیا کہ ملک یا مٹی سے محبت کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے ہی عوام کو طاقت کے استعمال سے دبایا جائے۔ بیان میں کہا گیا کہ جن لوگوں نے پاکستان کے ساتھ وفاداری دکھائی، ان سے جھگڑا کرنا یا ان کی قربانیوں کو فراموش کرنا احسان فراموشی کے مترادف ہے۔
مزید کہا گیا کہ “ہم سب وہی لوگ ہیں جو گزشتہ 78 برس سے پاکستان کے ساتھ جڑے ہیں۔ ہم وہ ہیں جو پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستانی شناخت رکھتے ہیں۔”
بیان میں سوال اٹھایا گیا کہ اگر پاکستان ہمارا اسپانسر اور محافظ نہ ہوتا تو کیا ہمیں بیرونِ ملک وہی شناخت اور مواقع میسر آ سکتے تھے؟
مزید کہا گیا کہ “ہم اپنے بچوں کو فوج میں کیوں بھیجتے ہیں؟ ہم وہاں میڈیکل کالجز، انجینئرنگ یونیورسٹیاں کیوں چاہتے ہیں؟ کیونکہ ہم اسی ملک کا حصہ ہیں جس نے ہماری سرحدوں کو محفوظ بنایا۔ ہم وہ خطہ ہیں جسے آزادی کے وقت متنازعہ چھوڑ دیا گیا، مگر آج بھی ہم پاکستان کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہیں۔”
اختتامی طور پر مقررین نے کہا کہ گزشتہ 78 برسوں میں ہم نے برادری ازم اور ذاتی مفادات کی بنیاد پر سیاست کو فروغ دیا، اور یہی تقسیم ہمیں کمزور کر رہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر باغ ضلع کے لیے بھی مساوی ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کرے اور معاہدے میں نظرثانی کر کے عوامی احساسِ محرومی کا ازالہ کرے۔
Comments are closed.