امان اللہ خان مرحوم کی کہانی،مقبول ا حمد خان کی زبانی

انٹریو:شیخ محمد امین ،عارف جان ، عبد الہادی بونجوی عکاسی:شجر خان

اسلام آباد:مقبول احمد خان کا تعلق پرشنگ استور گلگت بلتستان سے ہے ۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی رہنما اور سابق سپریم ہیڈ مرحوم امان اللہ خان کے بھتیجے ہیں ۔1978ء میں پیدا ہوئے ۔ابھی دوسری جماعت میں ہی تھے کہ اپنے تایا ابو امان اللہ خان انہیں کراچی اپنے ساتھ لے گئے ،ر وہاں سے مقبول احمد خان نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔پھر اسلام آباد شفٹ ہوئے اور ایم بی کی ڈگری وہاں سے حاصل کی ۔تقریباََ 15برس جناب امان اللہ خان کی صحبت میں گذارے ۔اس عرصے کے دوران تحریک آزادی کشمیر کے نشیب و فراز سے پوری طرح باخبر رہے اور جدوجہد کا طریقہ کار جناب امان اللہ خان کی عملی زندگی کو دیکھ کرسیکھتے رہے ۔ آج کل جموں کشمیر لبریشن فرنٹ گلگت بلتستان کے صدر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں ۔ جناب مقبول احمد خان جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے رہنماوئں نعمت اللہ خان اور ایڈوکیٹ مشتاق احمد خان صاحب کے بھی قریبی رشتہ دارہیں ۔گلگت بلتستان کے دورے کے دوران جناب ایڈوکیٹ مشتاق صاحب نے انہیں گھر پر بلایا و ہیں ان سے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے ہماری تفصیلی گفتگو ہوئی ۔اس کے بعد ہم ان کی رہنمائی میں قائد تحریک مرحوم امان اللہ خان کی قبر کی زیار ت اور فاتحہ پڑھنے گئے۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد مقبول احمد خان صاحب نے ہمارے لئے رات کے کھانے کا انتظام بھی کیا۔ایک کشمیری کی طرح مہمان نوازی کا بھر پور حق ادا کیا۔اپنے ساتھ کچھ دن گذارنے پر اصرار کیا ۔ہم نے پھر کبھی کا وعدہ دے کر ،ان سے رخصت لی۔جناب مقبول احمد خان سے جو گفتگو ہوئی ۔وہ من و عن قارئین کی خدمت میں  پیش ہے

سوال :۔ طالب علمی کے زمانے میں آپ نے تحریک آزادی کشمیر کیلئے کیا کردار ادا کیا؟
جواب : ۔خان صاحب کے گھر میں ہوتا تھا لیکن عملی طور پر  جے کے ایل ایف میں شامل نہیں تھا لیکن امان اللہ خان صاحب کے ساتھ رہنے کی وجہ سے تحریک آزادی بارے  میں ساری معلومات تھیں۔انہی معلومات کی بنیاد پر بعد میں ،میں نے باقاعد جے کے ایل ایف   میں شمولیت اختیار کی۔
سوال:۔ امان اللہ خان صاحب سے کیسے متاثر ہوئے ؟
جواب:۔امان اللہ خان صاحب سے متاثر ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ جس نے مجھے متاثر کیا وہ ہے ان کی تحریک آزادی کے ساتھ   کمٹمنٹ  اور مسلسل  جدوجہد ہے ، مرتے دم تک اپنے مشن پہ قائم رہے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ بستر مرگ پر تھےمیں ان کے ساتھ ساتھ رہا ۔ اس دوران بھی وہ کشمیر کی آزادی کے بارے میں فکر مند تھے ۔اور حالات و واقعات کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے۔
سوال:۔ امان صاحب کی وہ کون سی خوبی تھی جو اسے اپنے ہم عصر قائدین سے ممتاز کردیتی ہے ؟
جواب :۔قائد تحریک امان اللہ خان میںبہت ساری خوبیاں تھیں۔لیکن سب سے زیادہ میرے خیال میں ان کی مسلسل جدوجہد ہے جو انہوں نے تحریک آزادی کیلئے کی اور اپنے نظر یے سے کبھی بھی ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے ۔ آخری سانس تک آزادی کا نعرہ بھی لگاتے رہے اور اس کیلئے جدوجہد بھی کرتے رہے ۔امان اللہ خان قیس تھے اور کشمیر ان کی لیلیٰ
سوال :۔ امان اللہ خان صاحب کی گھریلو زندگی کے بارے میں بتائیں اور ان کا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رویہ کیسا تھا ؟
جواب :۔ امان اللہ خان صاحب نے ایک خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی کیونکہ ان کے والد علاقے کے نمبر دار تھے ۔ ابتدائی تعلیم کیلئے سرینگر کشمیر چلے گئے ۔ سری نگر ایس پی کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ اپس اپنے علاقے استور آئے اور پھر کچھ مدت بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے کراچی تشریف لے گئے اور وہیں سے اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کشمیرکا کام بھی جاری رکھا،اس دوران وہاں ایک سکول کی بنیاد رکھی جو کہ کچھ ہی عرصے بعد ایک اچھی دانش گاہ کا روپ اختیار کرگیا۔ ۔اپنے والدین سے انہوں نے بہت لا ڈ اور پیار پایا۔رشتہ داروں کے ساتھ ان کا رویہ بہت اچھا تھا کیونکہ وہ خاندان میں سب سے بڑے تھے اور انہوں نے اپنے بڑے ہونے کا فرض بھی بہت عمدہ طریقے سے نبھایا جس کی مثال یہ ہے کہ جو بھی پڑھنے کا شوق رکھتا تھاانہیں کراچی لے کر جاتے تعلیم کے ساتھ ان کی مالی امداد بھی کرتے جس کی وجہ سے ہمارے خاندان میں بہت سارے ڈاکٹر ، انجینئر اور ا چھے بیورو کریٹ بھی آپ کو نظر آ ئیں گے۔ نہ صرف انہوں نے رشتہ داروں کو تعلیم سے آراستہ کیابلکہ گلگت بلتستان کے اور بھی بہت سارے لوگوں کو اپنے اسکول اور کالج میں مفت تعلیم دلوائی ۔


سوال :۔گلگت بلتستان کے لوگ تحریک آزادی جموںوکشمیر کے حوالے سے کیاکردار ادا کررہے ہیں ؟
جواب :۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کا تحریک آزادی کشمیر میں کردار شروع دن سے ہے۔وادی کشمیر میں شہادت کا مقام حاصل کرنے والے اس خطے کے پہلے مجاہد اورنگزیب خان کا تعلق گلگت سے تھا۔غالباََ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا یہ پہلا مجاہد تھا ،جس نے سب سے پہلے راہ آزادی میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس کے بعد بھی بہت سارے لوگ اس تحریک میں شامل ہوتے رہے ۔ یہاں پوری قوم کشمیری عوام کی آزادی کیلئے بے چین ہے اور وقتاََ فوقتاََ احتجاجی مظاہروں ااور جلسے جلوسوں سے اس کا اظہار بھی کرتی ہے ۔ہماری تنظیم کا آفس گلگت میں ہے اور ہر ضلع میں کارکن موجود ہیں جو کہ آزاد ی کی تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہیں جس طرح دیگر علاقوں میں تحریک کا کام ہو رہا ہے ۔
سوال :۔ الحاق اور خود مختاری پر اختلاف اپنی جگہ لیکن پوری قوم (آرپار)اس بات پر متفق ہے کہ بھارت کا مقبوضہ جموںو کشمیر میں قبضہ کسی صورت قبول نہیں ۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں ؟
جواب :۔ سو فیصد درست ۔ میرا ایمان ہے کہ ہماری آزادی کی تحریک کو بھارت ختم نہیں کرسکے گا ۔یہ آزادی کی تحریک ہے ،آزادی کی تحریکیں کمزور ہوتی ہیں لیکن ختم نہیں ہوتیں ۔کامیابی میں وقت لے سکتی ہیں لیکن ناکام نہیں ہوتیں۔ بھارت نے صرف مقبوضہ کشمیر میں پابندی لگائی ہے لیکن کشمیر صرف مقبوضہ کشمیر نہیں بلکہ گلگت بلتستان آزاد کشمیر بھی کشمیر ہے ۔ پوری دنیا میں کشمیری کسی نہ کسی صورت میںآزادی کی شمع کو روشن کررہے ہیں اور ان شاء اللہ یہ جدوجہد بھی ضرور رنگ لائے گی۔بھارت کبھی بھی اس تحریک کو ظلم و جبر سے ختم نہیں کرسکتا ہے ۔ظلم ظلم ہے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ہمارے شہداء کا مقدس لہورائیگاں نہیں جائیگا۔
سوال:۔ موجودہ حالات میں حکومت پاکستان کے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں ؟
جواب :۔بہت افسوس ہے کہ پاکستان تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے اپنا کردار بخوبی ادا نہیں کررہا ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ چند سال پہلے بھارت نے آرٹیکل 370اور35A کو ختم کرکے جب مقبوضہ کشمیر کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے جارحانہ اقدامات کئے تو پوری کشمیری قوم پاکستان کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ بھارت کو ایسے اقدامات سے روکنے کیلئے کیا ٹھوس اقدامات کرتا ہے لیکن یہ کہتے ہوئے مجھے افسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے صرف چند منٹ کی خاموشی میں ہی عافیت سمجھی اور یوں اس سے شہہ پاکر بھارت ہر وہ طریقہ اختیار کررہا ہے جس سے مقبوضہ کشمیر پر اس کی حاکمیت اور اس کا قبضہ دوام حاصل کرسکے ۔
سوال :۔ امیر حزب المجاہدین بار بار تکرار کے ساتھ اس بات کا بر ملا اظہار کررہے ہیں کہ ۔۔۔عسکری جدوجہد ہی بھارت کو بامقصد مذاکرات کیلئے تیار کرسکتی ہے ۔ آپ کی رائے ؟
جواب :۔ جہاں تک عسکری جدوجہد کی بات ہے ،قائد تحریک امان اللہ خان بھی اسی سوچ اور فکر کے قائل تھے ،جس کا ذکر سید صلاح الدین صاحب کرچکے ہیں ۔ میری نظر میں ہمیں اپنی آزادی کیلئے سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ عسکری جدوجہد کو بھی جاری رکھنا چاہیے۔ کشمیر کی آزادی کیلئے ہر ممکنہ اقدام کیا جانا چاہیے ۔بھارت نے ہمیشہ پر امن جدوجہد سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور وہ اب بھی اٹھا رہا ہے ۔بھارت ہمیشہ با مقصد مذاکرات سے بھاگ رہا ہے۔وہ لا یعنی مذاکرات کا قائل ہے ایسے مذاکرات جن کا کوئی مقصد نہ ہو صرف طول دینے کیلئے تاکہ اس طوالت کے دوران مقبوضہ کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا اسے موقع ملے ۔


سوال:۔آپ نے سید علی گیلانی کا ذکر کیا۔ کبھی ان سے رابط ہوا؟
جواب :نہیں رابط نہیں ہوا۔البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے خطابات سننے کا اعزاز حاصل ہے ۔نظریاتی اختلاف اپنی جگہ،لیکن جہاں تک ان کی کمٹمنٹ اور جدوجہد کا تعلق ہے ،اسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔انہوں نے کشمیر کی
آزادی کیلئے زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گذارا اور کبھی اپنے نظریات کا سودا نہ کیا۔زندگی کی آخری سانسیں بھی زیر حراست ہی گذاریں ۔اللہ تعلی ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین
سوال : ۔75سال گزرگئے کیا آپ پر امید ہیں کہ کشمیر آزاد ہوگا؟
جواب : ۔ دنیا امید پر قائم ہے اور کشمیریوں کی آزادی کیلئے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دی ہیں مجھے کامل امید ہے کہ کشمیر ایک نہ ایک دن ضرور آزاد ہوگا ۔مقبول بٹ شہید، قائد تحریک امان اللہ خان،سید علی گیلانی شہید اور جناب یاسین ملک کی قربانیاں اور لاکھوں شہداء کا لہوکبھی بھی رائیگا ں  نہیں  جائے گا  ـ ان شا ء اللہ

Comments are closed.