اسلام آباد:(محمد شہباز) امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر و گلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کہا ہے کہ دنیا میں جہاں حکومتی اور انتظامی سطح پر تبدیلیاں وقع پذیر ہورہی ہیں ‘وہیں پاکستان ‘آزاد و مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام غیر قانونی بھارتی قبضے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔کشمیری عوام گزشتہ 78 برسوں سے بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔گوکہ طاغوتی قوتیں انصاف پر مبنی حق کی راہ میں رکاوٹ ہیں،لیکن کشمیری عوام جدوجہد سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے ان خیالات کا اظہار مقبوضہ اور آزاد جموں وکشمیر کے صحافیوں کے اعزاز میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے زیر اہتمام افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ جہاں ایک طرف غزہ میں حماس نے بے سروسامانی کے باوجود صہیونی سامراج کے خلاف اپنی قوت کا لوہا منوایا، جو اس خطے میں برہمن سامراج جس سے ایک پولیس مین کے بطور کھڑا کیا گیا ‘کے خلاف جدوجہد میں مصروف عمل کشمیری عوام کیلئے مشعل راہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنی دس لاکھ افواج مقبوضہ جموں وکشمیر میں تمام اختیارات کیساتھ تعینات کررکھی ہے،حالات کے تمام تر جبر کے باوجود وہ کشمیری عوام کو تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار نہیں کراسکا۔انہوں نے کہا کہ میں آزاد جموں وکشمیر کو قضیہ کشمیر کیلئے بیس کیمپ سمجھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ قلم و قرطاس کی وساطت سے متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ بطور قوم مودی کے مذموم عزائم کا جواب دینا ناگزیر ہوچکا ہے۔اس سلسلے میں رواں برس 05 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر وزیر اعظم آزاد کشمیر سے کہا تھا کہ آزاد خطہ جس کی آبادی پنتالیس لاکھ ہے ‘طلبا میں NCC اور شہری دفاع کے تربیتی کورسز کی از سر نو بحالی ضروری ہے۔تاکہ قوم کو آنے والے مشکل وقت کیلئے تیار کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جو مقبوضہ جموں وکشمیر کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے،حکومت آزاد کشمیر کی سطح پر ایک ایسا ادارہ معرض وجود میں لایا جائے جو بھارت کے مکروہ عزائم کی راہ میں ایک ڈھال کا کردار ادا کرسکے۔اسی طرح ریاست پاکستان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کی حوصلہ افزائی کریں اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی تناظر میں مقبوضہ جموں وکشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا،اس کا یہی تاریخی پس منظر تھا۔انہوں نے کہا کہ جنوری 2025 سے پاکستان نے دو برسوں کیلئے اقوام متحدہ کے غیر مستقل ممبر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں،جو خوش آئند امر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں پاکستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بجٹ خسارے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے،اسی طرز پر پاکستان کو مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کیلئے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ بطور امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر میری استدعا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر ایک خصوصی نمائندہ کا تقرر عمل میں لایا جائے،تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ حکومت پاکستان ایک سنجیدہ کوشش کی جانب گامزن ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ آزاد کشمیر کے نوجوانوں کو اس کے پرامن ماحول میں رہنے اور ان کیلئے سیاسی سپیس پیدا کرنا ہوگی۔آزاد کشمیر میں گوکہ تعلیمی شرح بہت زیادہ ہے لیکن نوجوان بے روزگار ہیں۔ہمارا قریب میں بیٹھا دشمن اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے۔لہذا حکومت آزاد کشمیر اس سلسلے میں عملی اقدامات کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر جماعت اسلامی پاکستان کے اشتراک سے بنو قابل کی طرز پر آزاد کشمیر کے ایک لاکھ بچے بچیوں کیلئے تین ماہ مفت فری لانسنگ کورسز کی ٹریننگ کا اہتمام کرنے جارہی ہے ،جس کا اعلان امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے مظفر آباد جلسے میں کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ میرپور آزاد کشمیر میں ایک برطانوی نژاد کشمیری خاتون کیساتھ قانون کے رکھوالوں کا سلوک اور رویہ جمہوری اور خاندانی اصولوں و اخلاقیات کے بالکل برعکس ہے۔اگر قانون کے رکھوالے ہماری بہنوں اور بیٹیوں کیساتھ ایسا سلوک کریں گے تو پھر ہم بطور بیس کیمپ کے باسی کیا پیغام دیں گے۔ہم نے اس واقع کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عید الفطر کے بعد پورے آزاد کشمیر میں پروگرامات کا انعقاد کرکے حکومت وقت کی خامیوں کی نشادہی کی جائے گی۔انہوں نے کہا ہمارے آباو اجداد نے بیس کیمپ کا جو خواب اپنی آنکھوں میں سجایا تھا،وہ بدقسمتی سے برادرازم کا شکار ہوگیا۔ انہوں نے صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں کہا کہ اگر چہ 05 اگست 2019 میں مودی کے غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات کے بعد 13 جوالائی 1931 کے شہدا کی یاد میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں چھٹی ختم کردی گئی لیکن یہ اہل کشمیر کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔بھارتی اقدامات ناقابل قبول ہیں۔انہوں نے دیامر باشاہ ڈیم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا متاثرین کیساتھ شروع دن سے رابطہ ہے ۔ان کے تحفظات دور کرنا ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے۔متاثرین کے معروضات کو حل کرنا نہایت ہی ضروری اور کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کیلئے انہیں نوکریاں فراہم کرنا لازم ہے۔انہوں نے کہا کہ میری امارت کو ڈیڑھ برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔میں اعتراف کرتا ہوں کہ صحافی اور ان کا قلم ہماری قوت میں اضافے کا باعث ہیں۔کیونکہ ریاست کے صحافتی حلقوں نے ہمیشہ ظالم کے مقابل مظلوموں کی داد رسی کیلئے جماعت اسلامی کا ساتھ دیا ہے۔جو خوش آئند امر اور ایمان دارانہ کردار ہے۔
Comments are closed.