سری نگر: غیرقانونی طور پر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں بھارتی پارلیمنٹ اورمقامی نام نہاد اسمبلی کی دوبارہ حلقہ بندیوں سے متعلق مودی سرکار کا نیا ڈھونگ سامنے آیا ہے، بھارتی حکومت کے قائم کردہ حلقہ بندی کمیشن نے مقبوضہ علاقے کا دورہ کئے بغیر اعدادوشمار اکٹھا کرنے کا عمل مکمل کرلیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سرکاری عہدیداروں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ کمیشن نے اعدادو شمار اکٹھے کر لئے ہیں اور 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پرحلقہ بندیوں کیلئے ایک لائحہ عمل وضع کیا جارہا ہے۔بھارتی حکومت نے رواں سال 6 مارچ کو مقبوضہ کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں آسام، اروناچل پردیش، منی پور اور ناگالینڈ میں لوک سبھا اور مقامی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کیلئے سپریم کورٹ کے ایک سابق جج رنجنا پرکاش دیسائی کی سربراہی میں حلقہ بندی کمیشن قائم کیا تھا۔
بی جے پی کے جنرل سکریٹری اشوک کول نے کہاہے کہ کمیشن اسمبلی نشستوں میں اضافہ کرے گا اور اپنی رپورٹ مکمل ہونے کے بعد وہ سیاسی جماعتوں اور لوگوں کے خیالات جاننے کیلئے بھارت کے زیرتسلط جموں وکشمیر کا دورہ کرے گا۔ دسمبر کے آخر تک کمیشن اپنا کام مکمل کرکے رپورٹ پیش کرے گا۔
دوسری جانب جموں وکشمیر میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان اعدادوشمار کی ساکھ پر سوال اٹھائے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں کانگریس پارٹی کے چیف ترجمان رویندر شرما نے کہا کہ حلقہ بندی کمیشن زمینی حقائق کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں اور کمیشن صرف کاغذی کارروائی کررہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ حلقہ بندیوں کے عمل کو جموںوکشمیرمیں بھارت نواز سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر مکمل کیاجانا چاہیے تھا۔
نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما علی محمد ساگر کا کہنا ہے کہ حلقہ بندی کے عمل کو عوامی نمائندوں اور خود کشمیری عوام کو اعتماد میں لے کر مکمل کیاجانا چاہیے تھا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیامارکسسٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ علاقے کا دورہ کئے بغیرحلقہ بندیوں سے متعلق اعدادو شمار مکمل کرنا غیر حقیقی ہے۔ اگر کمیشن نے مقبوضہ علاقے کا دورہ ہی نہیں کیاتو کس بنیاد پراعدادوشمار اکٹھے کئے گئے ہیںاور بی جے پی حکومت کے ماورائے آئین اقدامات مستقبل میں تباہ کن ثابت ہوں گے ۔
واضح رہے کہ وادی کشمیر میں لوگ اور سیاستدان سمجھتے ہیں حلقہ بندی کمیشن کی اس مشق کامقصد ہندو اکثریتی خطے جموںمیں اسمبلی کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے تاکہ طاقت کے توازن کو جموں کی طرف منتقل کیاجاسکے۔
Comments are closed.