اسلام آباد: بھارت شروع دن سے اہل کشمیر کو خون سے سینچی ہوئی تحریک آزادی کشمیرسے دستبردار کرانے کیلئے ظالمانہ اور جابرانہ ہتھکنڈوں کا بے دریغ استعمال کررہا ہے۔ کشمیری عوام کا قتل عام کرنے کے علاوہ خواتین کی آبروریزی،جائیداد و املاک کی تباہی اور آزادی پسند قیادت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو جھوٹے اور من گھڑت مقدمات میں گرفتار کرکے انہیں عقوبت خانوں میں ناقابل بیان مظالم کا نشانہ بناناایک معمول بن چکا ہے۔ان ظالمانہ اقدامات کے باوجود بھارتی حکمرانوں اور ان کے حواریوں کو بار بار خفت اور ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔آزادی پسند کشمیری رہنماوں، کارکنوں اور دوسرے نوجوانوں کو ان کے سیاسی عقائد پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی پاداش کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ سرکردہ حریت رہنماوں بشمول مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ اور محمد یاسین ملک کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے۔
بھارتی ایجنسی این آئی اے کشمیری عوام کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے اور سزا دلوانے کیلئے بدنام ہے اورمودی کشمیری عوام کی تحریک آزادی کی آواز کو دبانے کیلئے اس بدنام زمانہ این آئی اے کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔این آئی اے نے مودی کے کہنے پر ہی محمد یاسین ملک کی عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کرنے کیلئے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ پہلے این آئی اے نے محمد یاسین ملک کو اپنی ہی عدالت کے ذریعے ایک جھوٹے مقدمے میں عمر قید کی سزا دلوائی ہے۔اب اچانک این آئی اے ، نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کرتے ہوئے جناب یاسین ملک کی عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔جناب یاسین ملک کو سزا سنائے جانے میں بھارتی عدالتیں اس قدر جلدی میں ہیں کہ 29 مئی کودہلی ہائی کورٹ نے محمد یاسین ملک کو سزائے موت دلوانے کی این آئی اے کی دائر کردہ درخواست سماعت کیلئے منظورکرتے ہوئے 09اگست کو اس کی سماعت بھی مقرر کی ہے۔گزشتہ برس 25 مئی کو محمدیاسین ملک کو ایک بھارتی عدالت کی جانب سے فنڈنگ کیس کے ایک بے بنیاد مقدمے میں عمر قید کی سزا سنانا بدترین سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں تھا۔ جب کشمیریوں کو سزا سنانے کی بات آتی ہے تو بھارتی عدلیہ قانون اور انصاف کے تمام اصولوں کو نظرانداز کرتی ہے۔ مودی کو یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی پسند کشمیری قیادت کو پنجروں میں بند یا پھانسی کے تختوں پر لٹکانے سے انصاف پر مبنی کشمیری عوام کی جائز سیاسی آوازوں اور جدوجہد کو دبایا نہیں جا سکتا۔کشمیری عوام کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرنا مودی حکومت کی محض مایوسی اور بوکھلاہٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
محمد یاسین ملک جو اس وقت نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں،کو دہلی ہائی کورٹ نے نوٹس جاری کیاہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے جناب ملک کو سزائے موت دلوانے کی این آئی اے کی درخواست پر باضابطہ نوٹس جاری کیا ہے۔جناب یاسین ملک این آئی اے کی اس درخواست کا جواب دیں گے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک نایاب ترین کیس ہے۔دہلی ہائی کورٹ نے سزائے موت پر بھارتی لا کمیشن کی سفارشات بھی طلب کر لی ہیں۔بھارتی عدالتی عزائم سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جناب ملک کے خلاف فیصلہ کیا ہونے جارہا ہے۔زیادہ طویل عرصہ بھی نہیں گزرا جب انہی بھارتی عدالتوں نے سرزمین کشمیر کے دو مایہ ناز فرزندوں جناب مقبول بٹ اور جناب افضل گورو کو بالترتیب11فروری 1984 اور 9فروری 2013 میں پھانسی کے پھندوں پر چڑھایا تھا اور پھر ان کی میتیں بھی ان کے لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے انہیں اسی تہاڑ جیل میں دفنایا گیا ،جس میں آج محمد یاسین ملک قید تنہائی کاٹ رہے ہیں اور اب ان کی سزائے موت کا باضابطہ مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ انہیں اور دوسرے آزادی پسند کشمیری رہنمائوں کو ڈراکر عظیم اور لازوال قربانیوں سے مزین تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار کرایا جائے۔کیا ایسا ممکن ہوگا یا ہے؟یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کیلئے اہل کشمیر ایک کے بعد ایک لخت جگر تحریک ازادی کشمیر پر قربان کرتے چلے جارہے ہیں۔جناب مقبول بٹ 1984 میں تختہ دار پر چڑھ کر امر ہوگئے۔ٹھیک 25 برس بعد ایک اور فرزند افضل گورو بھی مقبول کے منتخب کردہ راستے کے راہی بنے اور پھانسی کے پھندے کو خوشی خوشی چوما۔
جس پر تہاڑ جیل کا پبلک ریلشین آفیسر سنیل گپتا ایک ٹی وی پروگرام میں باضابط آنسوئوں سے رویا،کہ افضل گورو ذرا بھی نہیں گھبرایا اور 2013 میں 9 فروری کی صبح جب چائے پیش کرنے کے بعد انہیں یہ بتایا گیا کہ یہ ان کی زندگی کی آخری چائے ہے،تو وہ بلکل بھی نہیں گھبرائے اور نہ ہی ان کے چہرے پر مایوسی کے کوئی اثار دکھائی دیئے۔اس کے بعد وہ خود پھانسی گھاٹ کی طرف چل دیئے۔ان کی آرام گاہ بھی تہاڑ جیل کے احاطے میں ہے۔آج اہل کشمیر کے ایک اور بہادر فرزند کو انہی الزامات اور مقدمات کا سامنا ہے جن کا سامنا مذکورہ بالا دو فرزندوں کو تھا۔مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارتی قبضے کے خاتمے کے خلاف جدوجہد اور اس جدوجہدکو منطقی انجام تک پہنچانا۔یہ ہے اصل اور بڑا جرم ،جو بھارتیوں کے سامنے ناقابل معافی ہے۔لیکن اہل کشمیر اس جرم کو کسی اور زاویئے سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔
اہل کشمیر مقبوضہ جموں وکشمیر پر ناجائز اور غاصبانہ بھارتی قبضے کے خاتمے کیلئے1947 سے لیکر آج تک سوا پانچ لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔1989 سے اب تک ایک لاکھ کشمیری تحریک آزادی پر قربان ہوچکے ہیں۔کھربوں روپے مالیت کی جائیداد و املاک اور کھیت و کھیلان کی تباہی اس کے علاوہ ہے مگر پھر بھی اہل کشمیر کا جنون تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے چپے چپے پر چھ سو سے زائد قبرستان ان 33 برسوں میں آباد ہوچکے ہیں،جن میں وہ لوگ آسودہ خاک سورہے ہیں،جو اپنا آج قوم کے کل پر قربان کرچکے ہیں۔کس کس کا نام لیا جائے،کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ایک ضخیم کتاب بھی کم پڑجائے گی۔مقبوضہ جموں وکشمیر کا ہر گھر قربانیوں کی اپنی ایک الگ اور لازوال تاریخ رکھتا ہے۔جناب مقبول بٹ کی بزرگ والدہ شاہ مالی بیگم جو یقینا پوری قوم کی ماں ہے بارہا یہ تاریخی جملہ دوہرا چکی ہیں کہ اگر دس مقبول بھی ہوتے انہیں بھی تحریک پر قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتیں۔جناب افضل گورو کی اہلیہ اور لواحقین نے بھی کوئی چیخ وپکار نہیں کی۔یہ تمام تر قربانیاں اورسارے واقعات جناب یاسین ملک اور تہاڑ جیل میں بدترین حالات کا مقابلہ کرنے والے اہل کشمیر کے سپوتوں کے پیش نظر ہیں اس کے علاوہ جناب مقبول بٹ اور جناب افضل گورو کی قبریں تو جیل احاطے ہی میں ہیں۔ایسے میں اہل کشمیر کے ان بہادر،نڈر اور بیباک فرزندوں کو ڈرایا جاسکتا ہے؟یاسین ملک ہوں یا کوئی اور فرزند،وہ تنہا اور اکیلے نہیں بلکہ وہ پوری قوم کے فرزند ہیں اور پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی ہے۔جس کا عملی مظاہرہ جناب یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سناتے وقت اہل کشمیر نے کیا تھا۔کہ آرٹیکل370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد جب بھارت نے اہل کشمیر کی سانسوں پر بھی پہرے بٹھائے،پورے مقبوضہ جموں و کشمیر کو فوجی چھاونی میں تبدیل کیاگیا۔ ایسے میں کون یاسین ملک کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف احتجاج اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ،مگر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھ لیا ،کہ سرینگر کے درودیوار بھارت کے خلاف اور ازادی کے حق میں نعروں سے گونج اٹھے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ سید صلاح الدین قدم بڑھاو ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے بھی بلند ہوئے ۔یہ بظاہر آگ سے کھیلنے کے مترادف تھا مگر اہل کشمیر بار بار آگ اور خون کے دریا عبور کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔اس جنون کے پیچھے لاکھوں شہدا کی قربانیوں کی وہ طاقت ہے جس سے توپ و تفنگ اور ایٹمی بموں سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔کون ان قربانیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکتا ہے۔یہ قربانیاں اہل کشمیر کا وہ قیمتی آثاثہ ہیں جن کے سامنے دنیا کی ہر چیز ہیچ ہے۔
آثاروقرائن یہی بتاتے ہیں کہ جناب یاسین ملک کو بھارت کی بدبودار اور ہندتوا سیاست کی بھینٹ چڑھانے کیلئے قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔کیونکہ 2024 میں بھارت میں پارلیمانی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔بی جے پی کو اپوزیشن کی 23جماعتوں کا سامنا ہے۔ جس کی ابتداء جنوبی بھارتی ریاست کرناٹک میں کانگریس کے ہاتھوں بی جے پی کی بدترین شکست سے ہوچکی ہے۔جہاں مودی اور امیت شاہ کے درجنوں جلسے اور ریلیاں کروا کر بھی بی جے پی خود کو شکست سے نہیں بچاپائی۔بارہ مسلم امیدوار وں میں سے دس کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور پہلی مرتبہ ایک مسلم رہنما عبدالقادر کو کرناٹک اسمبلی کا اسپیکر بھی منتخب کیا گیا۔حجاب،گائے کے ذبحہ اور حلال گوشت پر عائد پابندی کو پہلے ہی روز ختم کیا گیا۔یہ سارے عوامل بتارہے ہیں کہ بی جے پی 18فروری2019 میں پلوامہ میں انتخابات میں کامیابی کیلئے اگر اپنے 43 فوجیوں کو مرواسکتی ہے تو ایک اور کشمیری رہنما کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے بی جے پی کیونکر اجتناب کرسکتی ہے۔جس کا اظہار متحدہ جہاد کو نسل کے چیر مین سید صلاح الدین احمد نے بھی کیا ہے کہ بھارتی ریاست کرناٹک الیکشن میں شکست کے بعد ہندوتوا علمبردار بی جے پی انتہائی مایوسی کاشکار ہے۔اس شکست کے متوقع اثرات سے بچنے اور آنیوالے انتخابات میں بی جے پی کی کا میابی کیلئے کشمیر ی رہنماوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی سازش پر عملدرامد کا آغاز ہوچکا ہے۔سید صلاح الدین احمدنے کہا جس طرح ہندوتوا کے پیروکاروں کی خواہش پر قائد حریت محمد اشرف صحرائی کو قید تنہائی میں انتہائی بہیمانہ اور غیرانسانی سلوک کرکے شہید کیا گیا۔بلکل آج بھی اسی طریقہ واردات پر عمل کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔لہذاانسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں متعصب بھارتی عدالتوں میں کشمیری حریت رہنماوںباالخصوص جناب یاسین ملک کے غیر منصفانہ ٹرائل کا نوٹس لیں۔بین الاقوامی برادری کو غیر قانونی طور پر نظربند کشمیری آزادی پسند رہنماوں کو بچانے کیلئے آگے آنا چاہیے،اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے، جو بھارتی عدالتی حملوں کا شکار ہیں۔
Comments are closed.