بھارتی فوج نے درندگی کی انتہاء کردی ۔۔۔ 13 ماہ میں 237 بے گناہ کشمیری شہید

سری نگر: نریندرمودی کی فاشسٹ حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں گزشتہ 13 ماہ سے ظالمانہ لاک ڈاؤن جاری ہے، اس دوران درندہ صفت بھارتی فورسزنے 237 بےگناہ کشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیا۔

بھارتی محاصرے کے 13 ماہ مکمل ہونے پر کشمیر میڈیا سروس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق  بھارت کے غیرقانونی زیرقبضہ جموں وکشمیر میں گزشتہ برس 5 اگست سے مسلط کردہ مسلسل فوجی محاصرے نے کشمیریوں کی زندگیاں جہنم بنا دی ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 5 خواتین سمیت 237 کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان میں سے زیادہ ترکشمیریوں کو بھارتی فوجیوں نے محاصروں اور تلاشی کی کارروائیوں کے نام پر جعلی مقابلوں میں شہید کیا۔ نوجوانوں کو گھروں سے گرفتارکرنے کے بعد جعلی مقابلوں کے دوران قتل دیا جاتاہے اور اس بھیانک جرم کو چھپانے کے لیے بے گناہ کشمیریوں کو مجاہد یا پھر مجاہد تنظیموں کا کارندہ قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ 13 ماہ کے دوران پیش آنے والی شہادتوں کے نتیجے میں نو کشمیری خواتین بیوہ جب کہ 22 بچے یتیم ہو گئے۔ پانچ اگست 2019 سے اب تک کشمیر میں پر امن مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کے نتیجے میں 1 ہزار482 افراد شدید زخمی ہو گئے۔

درندہ صفت بھارتی سیکورٹی فورسزنے ظلم و بربریت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے شہریوں کے 954گھر اور  عمارات تباہ کیں، 89 خواتین کی بے حرمتی کی جبکہ خواتین اور لڑکوں سمیت 13ہزار 9سو 36افراد کو محاصروں اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران گرفتار کر لیا گیا۔

جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے کشمیریوں کی زندگیا ں سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔انتہاء پسند مودی سرکار کے پانچ اگست کے اقدام کا مقصد جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر کشمیریوں سے انکی شاخت چھیننا ہے لیکن تمام مظالم اور درندگی کے باوجود کشمیریوں کی آزادی کی آواز ہرگز خاموش نہیں کر سکتی۔

 رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ پورے جموں وکشمیر کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا، سینئر حریت رہنما سید علی گیلانی او ر میر واعظ عمر فاروق سرینگر میں اپنے گھروں میں مسلسل نظر بند ہیں۔ جبکہ یاسین ملک، آسیہ اندرابی سمیت دیگر رہنماؤں کوجھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کیا گیا ہے، اس کے ساتھ 1500 کشمیری کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں ہیں۔

Comments are closed.