شہید مجاہد رہنما پیر بشیر احمد المعروف امتیاز عالم تحریک آزادی کشمیر کے بے لوث اور نڈر رہنما تھے ۔پوری زندگی اسلام کی سربلندی اور تحریک آزادی کشمیر کیلئے وقف کی تھی ۔ان خیالات کا اظہار امیر حزب المجاہدین اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئر مین سید صلاح الدین احمد نے پریس کےنام جاری اپنے ایک بیان میں کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 20فروری2023 میں اسلام اور تحریک آزادی کے دشمنوں نے بھارتی خفیہ ایجیسیوں کی ایما پر اس مرد قلندر کو شہید کیا ۔ انکی شہادت سے اگرچہ ایک خلا پیدا ہوا تاہم یہ بھی ایک حقیت ہے کہ ایسے جانباز مرتے نہیں بلکہ قرآن مقدس کے الفاظ میں زندہ ہوتے ہیں اور رب کی ضیافتوں سے مستقل بنیادوں پر محظوظ بھی ہوتے ہوں ۔شہید کے زمین پر گرے ہوئے ہر ایک قطرے سے ہزاروں جانباز جنم لیتے ہیں ۔سید صلاح الدین احمد نے کہا کہ شہید امتیاز خدا ترس،نڈر اور بے خوف مجاہد رہنما تھے۔وہ تحریک آزادی کشمیر میں نہ صرف خود شہادت سے سرفراز ہو ئے، بلکہ ان کے والد بزگوار اور ایک بھائی کو بھی بھارتی قابض فوجیوں کے ہاتھوں شہادت کا جام پینا پڑا۔ان کے آبائی گھر کو خاکستر کیا گیا۔ان کی والدہ اور دیگر اہل خانہ کو بھی ہجرت کا سفر اختیار کرنا پڑا۔لیکن اس کے باوجود بھی شہید کے پائے استقلال میں ہلکی سی جنبش بھی نہ آئی ۔شہید رہنما دشمن کے اعصاب پر آخری لمحے تک سوار رہے۔ اعلی تعلیم یافتہ تھے لیکن دنیاوئی مالی فوائد حاصل کرنے کے مواقع کے باوجود 1990 میں حزب المجاہدین کی صفوں میں شمولیت کو ترجیح دی۔سخت ترین حالات میں مجاہدین کی صفوں کو مظبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔شہید کے قاتلوں کو 05 فروری کے روز پاکستان کی عدالت نے سنگین سزائیں سنا کر یہ پیغام دیا کہ شہید امتیاز عالم مرد آزاد ،مرد حر تھے اور عزت و احترام کی زندگی گزار کر وہ شہادت کا خلعت پہن کر اللہ کے حضور پیش ہوئے ۔امتیاز عالم کے قاتل حقیر مفادات کیلئے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے۔سید صلاح الدین احمد نے شہید امتیاز عالم سمیت تحریک آزادی کشمیر کے لاکھوں شہدا کی بلندی ۔درجات کی دعا کی بھی کی اور اس عزم کو دہرایا کہ حصول منزل تک ان کے نقش قدم پر چل کر یہ مقدس جدوجہد جاری رہے گی۔
دریں اثنا ماہنامہ کشمیر الیوم اور کشمیر ایورنس فورم کے زیر اہتمام راولپنڈی میں کشمیر الیوم کے دفتر پرشہید امتیاز عالم کی یاد میں ان کی دوسری برسی کے موقعہ پر ایک سمینار منعقد ہوا جس کی صدارت کشمیر الیوم کے چیف ایڈیٹر شیخ محمد امین نے کی ۔
سمینار میں شہید امتیاز عالم کے برادر اصغر فاروق احمدپیر مہمان خصوصی تھے ۔اس کے علاوہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی سمینار میں شرکت کی۔سمینار میں شرکاء نے شہید امتیاز عالم کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی زندگی کے تمام گوشوں پر روشنی ڈالی ۔شرکاء نے شہید امتیاز عالم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید امتیاز عالم تحریک آزادی کشمیر کے نڈر اور دشمن کیساتھ ہر وقت دو دو ہاتھ کرنے والے کمانڈر تھے، وہ ایک بے مثال کردار کے مالک تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کیلئے وقف کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کیا ۔ان کی زندگی آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ہے ،مقررین نے اس موقعہ پر کہا کہ شہید مرتے نہیں بلکہ وہ مرکر بھی امر ہوتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ خود قرآن مقدس میں شہید کو مردہ نہیں زندہ کہہ کر پکارتا ہے اور اللہ کے ہاں اپنا رزق پارہے ہیں۔مقررین نے کہا کہ امتیاز عالم کے ہمالیہ حوصلوں کو مضمحل کرنے کیلئے والد اور ایک بھائی کو بھارتی فوجیوں نے ایک ظالمانہ کارروائی میں شہید کیا گیا ، اس کیلئے دیگر مالی قربانیاں بھی دیں۔لیکن ان تمام تر آزمائشیوں کے باوجود شہید کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے بلکہ شہید آخری دم تک دشمن کے خلاف برسر پیکار رہے اور پھر اسی راہ میں اپنی متاع عزیز بھی قربان کی، وہ دشمن کے اعصاب پر ہمیشہ سوار رہتے تھے ،انہیں راستے سے ہٹانے کیلئے دشمن نے ایک نیٹ ورک قائم کرکے انہیں آزاد خطے میں بزدلی سے حملہ کرکے شہید کیا۔ مقررین نے 05 فروری کو پاکستان کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شہید امتیاز عالم کے قاتلوں کو سنائی جانے والی سزاوں کے فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا ۔سمینار میں یو نائیٹد کشمیر جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے عبوری صدر عبد الطیف ڈار ،کشمیر میدیا سروس کے معروف صحافی کفایت رضوی ،کشمیر جرنلسٹ فورم کے جنرل سیکریٹری مقصود منتظر ، ،صحافی ابوذرشوکت علی خان ،صحافی خالد شبیر قریشی ،صحافی اویس بلال،،صحافی فاروق احمد ،صحافی حیدر علی،فرقان الٰہی ،ظفر احمد ، شیخ جاوید احمد،ارسلان احمد، شجر خان ,شیخ یاسین ، عبدالاحد پاجی اور اویس احمد سمیت کئی دیگر افراد نے بھی شرکت کی ۔سمینار کے آخر میں شہید کی بلندی درجات کیلئے دعا کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ شہدا کے مشن کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا سرزمین کشمیر کے ہر فرد پر قرض اور فرض ہے ۔جس سے کوئی کوتاہی نہیں برتی جائے گی۔شہدا کے مقدس خون کی لاج رکھنا ناگزیر ہے۔
Comments are closed.