مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو آج پانچ برس مکمل ہورہے ہیں۔ان پانچ برسوں میں اہل کشمیر پر قیامت ڈھادی گئی، تاریخ کا بدترین جبر کشمیری عوام پر مسلط کیا گیا۔مودی حکومت نے 5 اگست 2019 سے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں اپنی ریاستی دہشت گردی میں خوفناک اضافہ کیا ہے جبکہ آرٹیکل 370 اور 35اے کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر کو عملی طور پر ایک کھلی جیل میں تبدیل کیا گیا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد بھارت نے نہ صرف کشمیری عوام پر فوجی محاصرہ مسلط کیا بلکہ یہاں آزادی اظہار رائے کا گلہ گھونٹا اور کشمیری عوام کی سانسوں پر بھی پہرے بٹھائے۔بھارت نے 5 اگست 2019 کے بعد کشمیری عوام کے تمام بنیادی حقوق اور آزادیوں کو سلب کر لیا ہے۔حتی کہ مذہبی معاملات میں بھی کھلم کھلا مداخلت کی جاتی ہے۔ کئی برسوں سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں نماز جمعہ اور عیدیں کے بڑے اجتماعات پر پابندی عائد ہے ،جبکہ تاریخی جامع مسجد سرینگر کے منبر و محراب کئی کئی ہفتوں تک خاموش ر ہتے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیرکی پوری آزادی پسند قیادت کے علاوہ مذہبی رہنما بھی بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں مقید کیے گئے ہیں۔ کشمیری عوام کی جائیداد و املاک اور رہائشی مکانوں پر قبضہ اب ایک عام روایت بن چکی ہے۔
05 اگست2019 کے ماروائے آئین اقدام کے پیچھے جہاں کئی عوامل کار فرما ہیں،وہیں BJP اورRSS کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں قبل از اسلام ہندو تہذیب کا از سر نو احیا سرفہرست ہے ۔مودی کی جانب سے 5 اگست 2019 میں غیر قانونی اقدامات کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیرکی مسلم شناخت چھیننا ہے۔جس کیلئے بڑے پیمانے پر کام ہورہا ہے اور مسلم اکثریتی کردار مٹانا مودی اور اس کے قبیل کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔اسی لیے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں غیر مقامی افراد یعنی ہندوئوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔جس کیلئے05 اگست2019 کے بعد بیالیس لاکھ ڈومیسائل کا اجرا عمل میں لایا جاچکا ہے ۔اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جب کشمیری عوام کی مسلم شناخت کوہندو اقلیت میں بدالا جائے تو حق خود ارادیت کی جدوجہد از خودکمزور پڑجائے گی۔البتہ اپنی منفرد شناخت کا تحفظ کشمیری مسلمانوں کیلئے ایک ناگزیر مسئلہ ہے۔کشمیری عوام5 اگست 2019 کی غیر آئینی تبدیلیوں کو کبھی قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی آج کے دن تک کیا ہے۔بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ بھارت کے 5 اگست 2019 میں ماورائے آئین اقدامات کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔حالانکہ مودی اور اس کے حواری یہ دعوی کرتے نہیں تھکتے کہ آرٹیکل 370اور35اے کے خاتمے نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات کو یکسر بدلا ہے۔مگر اب تو بھارت کے دانشور حلقے اور سابق بھارتی آفیسران اور بیوروکریٹ کھل کر اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں عسکری تحریک نہ صرف دوبارہ فعال ہوئی بلکہ حالیہ ایام میں صوبہ جموں اور شمالی کشمیر میں بھارتی افواج پر حملوں میں شدت اور ان حملوں کے نتیجے میں بھارتی افواج کو بھاری جانی و مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے،جو گھمبیر صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔اگر ایک جانب بھارت کا ظلم وجبر رکنے کا نام نہیں لیتا مگر وہیں اہل کشمیر تمام تر جبر واسبتداد کے باوجود نہ بھارت کے سامنے سرنگوں ہونے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی تاریخ کی لازوال اور عظیم قربانیوں سے مزیں تحریک آزادی پر کوئی سمجھوتہ کررہے ہیں،یہی اہل کشمیر اور تحریک آزادی کا مثبت اور جاندار پہلو ہے۔ 5اگست مقبوضہ جموں و کشمیر کی جدید تاریخ کا سب سے المناک، دردناک اور تباہ کن دنوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہ دن تھا جب ہندوتوا طاقتوں نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیری عوام کے تمام سیاسی، سماجی، ثقافتی، معاشی، مذہبی اور دیگر بنیادی حقوق کو پس پشت ڈالا ہے۔ 5 اگست2019 ہی وہ دن تھا جب ہندوتوا مودی حکومت اپنی تمام تر فوجی طاقت، وسائل اور اداروں کے ساتھ مل کر مقبوضہ جموں و کشمیر پر حملہ آور ہوئی اور کشمیری عوام کے تمام بنیادی حقوق غصب کئے۔
بھارتی حکومت، بھارتی پارلیمنٹ، اس کی 10 لاکھ ا فواج، درجنوں تحقیقاتی ادارے، خفیہ ایجنسیاں اور یہاں تک کہ اس کی مسلم مخالف اور ہندتوا نواز عدلیہ نے کشمیری عوام کو فتح کرنے اور اسے ہندو راشٹر کا حصہ بنانے کیلئے شروع دن سے سر جوڑ لیے تھے ۔مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بدترین ڈکیتی، سب سے بڑی دہشت گردی اور کشمیری عوام کے تشخص، ثقافت اور بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔اس غیر جمہوری،غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کے تباہ کن اثرات اب آہستہ آہستہ مرتب ہورہے ہیں۔ جن میں مقبوضہ جموں و کشمیرمیں نو آبادیاتی ایجنڈا اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے،جو بین الاقوامی اصولوں کی صریحاخلاف ورزی ہے۔کنٹرول لائن کی دونوں جانب،پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری آج یوم استحصال مناکر بھارت پر واضح کرتے ہیں کہ اہل کشمیر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو قبول اور تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیرجو کہ ایک بہت بڑی جیل اور دنیا کا سب سے بڑا ٹارچر سیل ہے۔یہاں کا ہر انچ مسلح بھارتی فوجیوں سے بھرا پڑا ہے اور گزشتہ پانچ برسوں سے مسلسل محاصرے میں ہے۔ 05 اگست 2019 سے قابض بھارتی فوجیوں نے 900 سے زائد کشمیریوں کا قتل عام کرنے کے علاوہ2440 زخمی اور 25,000 سے زائد گرفتار کیے اور وہ مختلف من گھڑت مقدمات کے تحت بھارتی جیلوں میں بند ہیں۔اس کے علاوہ بدنام زمانہ بھارتی این آئی اے اور ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایس آئی اے جیسی خوفناک بھارتی ایجنسیوں نے چھاپوں کے نام پر خوف ودہشت مچائی ہے۔سینکڑوں آزادی پسند رہنماوں اور کارکنوں کی جائیدادیں ضبط کی جاچکی ہیں۔ مختلف بہانوں سے کشمیری عوام کی املاک کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔جس کا بنیادی مقصد کشمیری عوام کو ڈرانا اور انہیں غاصبانہ بھارتی قبضہ تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ وہی استعماری پالیسی ہے جسے اسرائیل فلسطین میں استعمال کر کے انہیں ان کی پشتنی زمینوں سے محروم کر کے اپنی ہی سرزمین پر بے گھر اور ہجرت پر مجبور کر رہا ہے۔جبکہ 07اکتوبر2023 سے تو صہیونی اسرائیل نے اہل فلسطین کی منظم اور سرکاری نسل کشی شروع کی ہے،جو رکنے کا نام نہیں لیتی اور غزہ کے ہسپتالوں میں رضا کارانہ طور پر خدمات انجام دینے والے امریکی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل انتالیس ہزار نہیں بلکہ 9300ہزار فلسطینیوں کو قتل کرچکا ہے۔اب تو اہل فلسطین کے جذبوں کے آمین جناب اسماعیل ہینہ بھی اپنے رب کے حضور پہنچ چکے ہیں۔جو31جوالائی کی رات ایران کے دارالحکومت تہران میں صہیونی حملے میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ بعینہ مودی حکومت بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں صہیونی اسرائیلی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مودی حکومت کے 5 اگست 2019میں غیر اخلاقی اور غیر آئینی اقدام نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچانے کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ نہ ختم ہونے والے لاک ڈاون نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی پہلے سے ہی کمزور معیشت کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور ہزاروں کشمیریوں کو ان کی زندگی اور روزگار سے محروم کیا ہے۔ قصائی مودی کی قیادت میں آر ایس ایس کی حکومت مسلمانوں کا صفایا کرنے، مقبوضہ جموں و کشمیر کو قبرستان میں تبدیل کرنے اور متنازعہ علاقے میں غیر ریاستی ہندوئوں کو بسانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس کیلئے ہزاروں بھارتی ہندو جنونیوں کو ڈومیسائل جاری ،انہیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں اراضی منتقل اور اعلی عہدوں پر تعینات کرنا کشمیری عوام کو غلام در غلام اور نوآبادیاتی بنانا شامل ہے۔05اگست 2019 کے بعد مقبوضہ خطے میں قابض بھارتی انتظامیہ کشمیری مسلمان سرکاری ملازمین کوکبھی ایک تو کبھی دوسرے بہانے ملازمتوں سے برطرف کررہی ہے ۔ اب تک درجنوں کشمیری ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کیا جاچکا ہے۔ برطرف کشمیری مسلمان ملازمین کی جگہ ہندو ملازمین کو بھر تی کیا جا رہا ہے۔ اس صہیونی پالیسی کا مقصد کشمیری عوام سے سب کچھ چھیننا اور انہیں اپنی ہی سرزمین پر محکوم ومجبور اور تما م وسائل و حقوق سے محروم کرنا ہے۔بھارت فوجی طاقت کے ذریعے کشمیری عوام کی آواز کچلنے کیلئے ہر وحشیانہ حربہ استعمال کرنے کے باوجود کشمیری عوام کو فتح کرنے میں ناکام رہا ہے اور اہل کشمیر کا جذبہ آزادی ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔
کشمیری عوام نے ہندوتوا عناصر کی تمام امیدوں کو خاک میں ملا دیا ہے اور انہیں خاک چاٹنے پر مجبور کر رکھاہے۔ بھارتی ظالمانہ رویے نے کشمیری عوام کے اس یقین کو مزید پختہ ترکیا ہے کہ بھارت ان کا بدترین دشمن ہے اور ان کی زندگی، عزت، مستقبل، مذہبی شناخت، ثقافت اور سب کچھ بھارتی تسلط میں دا وپر لگا ہوا ہے۔ غیر مسلح لیکن بہادر اور پرعزم کشمیری عوام نے اپنے عزم، استقامت اور ناقابل تسخیر جذبے کے ذریعے دنیا کی چھٹی فوجی طاقت کو الجھائے رکھا ہے۔ کشمیری عوام نے ہٹلر سے متاثرہ آر ایس ایس کے خواب چکنا چور کیے ہیں اور پھر ایکبارثابت کیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر ہیں، انہیں قتل کیاجا سکتا ہے لیکن شکست نہیں دی جا سکتی۔ ان کے حوصلے ہمالیہ سے بھی بلند ہیں، بھارت نے 10 لاکھ سے زائد ا فواج کی بنیاد پر اہل کشمیر کو یرغمال بنایا ہوا ہے لیکن بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنی تمام فوجیں بھی تعینات کریں تو بھی شرمناک اور ذلت آمیز شکست اس کا مقدر ہے۔ کشمیری عوام کا بے مثال اور ناقابل شکست عزم بھارت کیلئے نوشتہ دیوار ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت کشمیری عوام کی جائز تحریک آزادی کو کچل نہیں سکتی۔ یہ بھارت کے بھی اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی اور بے جا ضد سے باز آجائے اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرے۔بھارت بہت تماشے کرکے دیکھ چکا ہے،کبھی G20 کے نام پر تو کبھی پورے بھارت سے ہندئوں کو یہاں لاکر امر ناتھ یاتر ا کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتا ہے مگر بھارت کے اہل دانش جانتے ہیں کہ ان اقدامات سے غربت اور افلاس میں ڈوبی بھارتی عوام کا پیٹ نہیں بھراجاسکتا۔مودی کی قیادت میں بھارت جرمنی کے نازیوں کی طرح ہندوتوا فسطائی ملک بن چکا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی جنگی جرائم کو دستاویزی شکل دے چکی ہیں۔کیونکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی جنگی جرائم عالمی برادری کیلئے چیلنج ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے ارتکاب پر بھارتی فوجیوں کے خلاف جنگی جرائم کے ٹربیونل میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔عالمی طاقتوں کو اپنے دوغلے پن سے باز آکربھارت کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں جنگی جرائم کے ارتکاب سے روکنا چاہیے۔اقوام متحدہ کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر بھارت پر اسی طرح پابندیاں عائد کرنی چاہئیں،جس طرح کمزور بالخصوص مسلمان ممالک کے خلاف عائد کی جاتی ہیں۔ عالمی برادری پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے اور متنازعہ خطے میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے پر مجبور کرے۔
واضح رہے کہ 5 اگست 2019 میں مودی کی زیر قیادت ہندوتوا بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے دو علاقوں جموں وکشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کے علاوہ مرکز زیر انتظام علاقوں میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کشمیری عوام پر فوجی محاصرہ بھی مسلط کیا تھا۔کنٹرول لائن کی دونوں جانب اور دنیا بھر میں موجود کشمیری کی جانب سے آج یوم سیاہ منانا دنیا کیساتھ ساتھ بھارت کیلئے پیغام ہے کہ کشمیری عوام مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی،ناجائز اور غاصبانہ قبضے کو قبول اور تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ کشمیری عوام مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کے خاتمے کیلئے جدوجہد میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں جاری بھارتی فوجی مظالم اور دہشت گردی کو ختم کرائے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم پورے علاقائی امن وسلامتی اور استحکام کیلئے سنگین خطرہ ہیں لہذا بھارتی منصوبوں اور عزائم کو روکنے کیلئے میڈیا کیساتھ وابستہ افراد کو بھرپور کردار ادا کرکے پوری دنیا کے سامنے بھارت کو بے نقاب کرنا چاہیے۔میڈیا جوکہ ایک اہم محاذ اور ہتھیارہے ایمانداری اور مستقل مزاجی سے اس محاذ پربھارتی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ بھارت نے05 اگست2019 کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں میڈیا کی آزادی نہ صرف سلب کی بلکہ متعدد صحافیوں کو سچ لکھنے کی پاداش میں گرفتار بھی کیا ہے۔ایسے میں پاکستان و آزاد کشمیر اور پوری دنیا میں میڈیا کیساتھ وابستہ افراد پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی موجودہ سنگین صورتحال کو اس کے صحیح اور تاریخی تناظر میں اجاگر کریں۔بھارت نہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال سے متعلق من گھڑت اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتا ہے بلکہ اس کا اس حوالے سے بیانیہ بھی ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔اس کے مقابلے میں کشمیری عوام کی عظیم اور لازوال قربانیاں ہیں اور ان قربانیوں سے عالمی برادری کو روشناس کرانا ضروری ہے،جو بحیثیت مجموعی ہرکشمیر ی پر فرض اور قرض ہے۔ اہل کشمیر کی قربانیوں کی حفاطت ہر حال میں کی جائے گی۔ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کئی دہائیوں سے ظلم وجبر کی داستانیں رقم کی ہیں،البتہ بھارت کبھی بھی کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی تحریک کوختم نہیں کرسکتا کیونکہ اس تحریک میں 1989 سے لیکر اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد اپنی جانین قربان کرچکے ہیں جبکہ 1947 سے کل ملا کر آج تک سوا پانچ لاکھ کشمیری بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے مرتبہ شہادت پر فائز ہوچکے ہیں،اس مقدس خون کی حفاظت اور اس کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے،جو ہر حال میں نبھائی جائے گی۔
Comments are closed.