اسلام آباد: بھارت نے کشمیری مسلمانوں کی مذہبی آزادی سمیت ہر حق چھین لیا ہے۔ آرایس ایس کی حمایت یافتہ مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو کھلے عام ٹھیس پہنچا رہی ہے۔ بھارتی فوج کی 50راشٹریہ رائفلز سے وابستہ اہلکار23 اور 24جون کی درمیانی رات کو زڈورہ پلوامہ پہنچے۔ایک فوجی افسر کی قیادت میں فرقہ پرست بھارتی فوجیوں نے علاقے میں اس طرح چھاپے مارے جیسے وہ کسی ہدف کی تلاش میں ہوں۔ آپریشن کے دوران بھارتی فوجیوں نے کم از کم 10 مقامی نوجوانوں کو حراست میں لیا اور کئی کو غیر انسانی تشدد کا نشانہ بناکر ان کی ہڈی پسلی ایک کردی۔ لوگوں کو صبح فجر تک یر غمال بنائے ر رکھا گیا۔ فجر کے وقت ایک مقامی موذن اذان دینے کے لیے گائوں کی جامع مسجد میں گیا۔ بھارتی فوجیوں نے اس کا پیچھا کیا اوراذان کے درمیان میں اسے لائوڈ اسپیکر پر جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔بھارتی فوجیوں نے حراست میں لیے گئے نوجوانوں کو موذن کے پیچھے کھڑا کرکے انہیں بھی جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔
یوں بھارتی فوجیوں نے مسجدکے تقدس کو پامال کیا۔بے گناہ کشمیری مسلمانوں کو بندوق کی نوک پر ہندتو انعرے لگانے پر مجبور کرنا مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مودی حکومت کی منظم ہندتواپالیسی کا حصہ ہے۔مودی حکومت کشمیری مسلمانوں کو ان کی مذہبی وسیاسی شناخت اور اپنے ہی مادر وطن سے محروم کرنے کی مذموم سازش کر رہی ہے۔ مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ آر ایس ایس سے متاثرہ بی جے پی قیادت مقبوضہ جموں وکشمیرسے مسلمانوں کو ہی ختم کرنا چاہتی ہے۔ ہندوتوا لیڈر کشمیری عوام کی مذہبی شناخت مٹانے کا کھلے عام اعلانات کر رہے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں قبل از اسلام ہندو تہذیب کو از سر نو بحال اور مسلط کرنا بی جے پی اور آر ایس ایس کا اصل ہدف ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیری عوام مودی کے مذموم عزائم کو شکست دینے کیلئے اتحاد و اتفاق کا بھر پور مظاہر ہ اور ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملائیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں بی جے پی حکومت کی تمام شیطانی چالوں اور منصوبوں کو شکست دینے کیلئے کشمیری عوام کا اتحاد ناگزیر اور وقت کی ضرورت ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مودی حکومت کے انتہا پسندانہ ہتھکنڈوں نے دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کا اصل مکروہ چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں نے پورے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کو داو پر لگا دیا ہے، بین الاقوامی برادری کو مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مودی حکومت کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کا نوٹس لینا چاہیے۔ دنیا کشمیری مسلمانوں کو ہندو فسطائیت سے بچانے کیلئے آگے آکر اپنا کردار ادا کرے ،اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔جے شری رام کے نعرے بھارت میں ہندو انتہا پسند گروہ چند مسلمانوں کو گھیر کر لگانے پر مجبور کرتے ہیں لیکن اب یہ جراثیم بھارتی فوجیوں کے ذہنوں میں بھی پیوست ہوگئے اور وہ بھی اس بیماری میں بری طرح مبتلا ہوگئے ہیں،جس کا عملی مظاہرہ زڈورو پلوامہ میں دیکھنے میں آیا ہے۔
زڈورہ پلوامہ کی جامع مسجد کی بے حرمتی اور اس کے تقدس کو پامال کرنے کے علاوہ نمازیوں کو جے شری رام کے نعرے لگوانا کوئی پہلا اور شائد آخری واقعہ نہیں ہوگا۔اس سے پہلے مقبوضہ جموں وکشمیر میں درجنوں مساجد کی بیحرمتی اورانہیں نذر آتش کرنے میں بھارتی فوجی ملوث ہیں جبکہ درگاہ حضرت بل سرینگر کا 1993 میں تین ماہ سے زائد عرصے تک فوجی محاصرہ،مسجد سمیت خانقاہ کا پانی منقطع اور لوگوں کو محصور بھی رکھا جاچکا ہے۔اس ظلم و بربریت کے خلاف پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں شدید احتجاج اور مظاہرے پھوٹ پڑے تھے، 22 اکتوبر 1993 میں بیجبہاڑہ میں ہزاروں لوگوں کا جلوس درگاہ حضرت بل سرینگر کی جانب روان دوان تھا پر بھارتی درندوں نے بندوقوں کے دہانے کھول کر 45 کشمیری نوجوانوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کیا ۔جبکہ 1993 میں ہی بھارتی سفاکوں نے درگاہ حضرت بل کا دوبارہ محاصرہ کرکے بیسیوں نوجوانوں کا قتل عام کیا تھا۔صرف دو برس بعد ہی7 مارچ 1995 میں بھارتی فوجیوں نے چرار شریف بڈگام میں مشہور صوفی بزرگ شیخ نورالدین نورانی کی درگاہ اور مسجد میں مجاہدین کی موجودگی کا بہانہ بناکر محاصرے میں لیکر عین عید الاضحی کے دن پوری بستی سمیت جلا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔اس کاروائی کے پیچھے یہ مذموم مقصد کار فرما تھا کہ کشمیری عوام کو ان کے آشیانوں سے محروم کرکے انہیں تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار کرایا جائے۔مگر اہل کشمیر اس سانحہ سے بھی سرخرو ہوکر نکلے،نہ صرف جامع مسجد اور شیخ نورالدین نورانی کی زیارت بلکہ چرار شریف کی پوری بستی کو از سر نو تعمیر کرکے بھارتی حکمرانوں اور ان کے حواریوں پر واضح کیا گیا کہ اس طرح کے بزدلانہ حربوں سے اہل کشمیر کو ڈرانا ممکن نہیں تھا۔مقبوضہ جمو ں وکشمیر کی سرزمین کو اولیائے اللہ( پیر وار) کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسلام کی ترویج کیلئے ان اولیائے اللہ نے انتھک محنت کی۔ یہ پاک ہستیاں نہ صرف پوری ریاست جموں وکشمیر بلکہ بھارت میں بھی تبلیغ کا ذریعہ بنی ۔ مختلف علاقوں میں خانقاہیں اور مدرسے تعمیر کیے ۔ دراز قد ،بارعب اور باوقار شخصیت کے مالک شیخ نورالدین نورانی ایک عظیم المرتبت مقام رکھتے ہیں ۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ قران پاک سے فارسی سے کشمیری زبان میں ترجمہ کرنا تھا ۔اس کے علاوہ جناب شیخ کا کشمیری میں ایک بہت بڑا شاعری مجموعہ بھی ہے۔انہیں کشمیری علامہ اقبال بھی کہا جاتا ہے،کیونکہ انہوں نے بعینہ شاعر مشرق کی طرز پر اپنے کشمیری کلام میں قرآن کی تشریح کی ہے۔شیخ نورالدین نورانی نے 842ھ بمطابق 1440عیسوی میں 63برس کی عمر میں وفات پائی۔ ان کی نماز جنازہ میں 9لاکھ افراد نے شرکت کی ۔ جن میں اس وقت کے بادشاہ زین العابدین بھی شریک تھے ۔ ان کی وفات کے 400برس بعد ایک افغان گورنر عطا محمد خان نے ان کے نام پر سکے بھی جاری کئے ۔وہ ایران سے سفر کرکے مقبوضہ کشمیر پہنچے تھے اور پھر مقبوضہ کشمیر کو ہی اپنا مسکن بنایا اور ان کا مرقد چرار شریف بڈگام میںہے۔بھارتی فوجیوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ یکم جنوری 2000ء میں جامع مسجد کشتواڑ کو بھی نذر آتش کیا ۔ 10 اپریل2021 میں جان محلہ شوپیاں میں بھارتی فوجیوں نے محاصرے اور تلاشی کارروائی کے دوران ایک مسجد کو نقصان پہچایا اور قرآن پاک کی بھی بے حرمتی کی۔16نومبر2022میں دراس کرگل میں عالی شان جامع مسجد اچانک آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مکمل طور پر خاکستر ہوگئی۔
قرآن پاک اور مساجد کی بے حرمتی کشمیری مسلمانوں کیلئے ناقابل برداشت ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں تعینات بھارتی فوجی گزشتہ سات دہائیوں سے مساجد ، قرآن پاک اور مذہبی مقامات کی مسلسل بے حرمتی کررہے ہیں۔ اگست 1989میں ایک فوجی آپریشن کے دوران جامع مسجد سرینگر کے تقدس کی پامالی اور اس طرح کے دیگر واقعات بھارت کے سیکولر چہرے پر ایسے بدنما دھبے ہیں،جنہیں کسی صورت دھویا نہیں جاسکتا۔8جولائی 2016ء میں افسانوی شہرت کے حامل برہان وانی کی شہادت اور5اگست2019 کے اقدام کے بعد درجنوں ہفتوں تک جامع مسجد سرینگر مقفل رہی ۔جبکہ میرواعظ عمر فاروق جو کہ جامع مسجد کے مذہبی پیشوا بھی ہیں04اگست2019 سے اپنے گھر میں نظر بند اور انہیں جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے جبرا روکا جاچکا ہے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگار نشاندہی کررہے ہیں کہ ہندو توا قوتوں نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں اسلامی مراکز کو تباہ کرنیکا منصوبہ بنا رکھا ہے، مودی پورے بھارت خاص طور پر مقبوضہ جموںوکشمیر میں بابری مسجد کو شہید کرنے جیسی کارروائیاں دہرانا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فسطائی مودی نے مقبوضہ جموں وکشمیر میںاسلام سے قبل کا دور واپس لانے اور ہندو ثقافت مسلط کرنے کااعلان کر رکھا ہے اور بی جے پی اور آرایس ایس کے رہنما کھلے عام کہہ ر ہے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 50ہزار مندر تعمیر کیے جائیں گے۔5اگست2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے مودی کی ہندتوا پالیسیوں کے نفاذ میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں آئے روز نت نئے قوانین کا اطلاق ،مقبوضہ جموں وکشمیر کی جغرافیائی ہئیت تبدیل،آبادی کا تناسب اورتقریبا بیالیس لاکھ غیر ریاستی باشندوں جو کہ سارے ہندو ہیں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کا ڈومیسائل فراہم کرنا اور حلقہ بندیاں اسی سلسلے کی کڑیا ں ہیں۔ جس کا مقصد یہاں ایک ہندو وزیر اعلی مسلط کرکے ریاستی اسمبلی سے 05اگست2019 کے غیر آئینی،غیر قانونی اور غیر جمہوری اقدامات کی توثیق کرانے کیلئے ایک قرارداد منظور کرانا مقصود ہے۔
تاریخ کے تمام تر جبر اور بدترین حالات کے باوجود اہل کشمیر نہ تو عظیم اور لازوال قربانیوں سے مزین اپنی تحریک آزادی سے دستبردار ہونے پر آمدہ ہیں اور نہ ہی وہ ہار مانے پر تیار ہیں۔جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ زڈورہ پلوامہ میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے مسجد کا تقدس پامال کئے جانے اورنمازیوں کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبورکرنے کے خلاف پورے ضلع میں مسلسل ہڑتال ہے۔اس واقعے کی خبر پھیلتے ہی لوگ مشتعل ہوگئے اور اپنے گھروں سے باہر نکل کر بھارت اور اس کی سفاک ا فواج کے خلاف شدید نعرے لگائے۔علاقے میں دکانیں بند جبکہ گاڑیوں کی آمد ورفت بھی معطل ہے۔ایک طرف مقبوضہ جموں وکشمیر سے لیکر بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتوں کا جینا دوبھر کیا جاچکا ہے اور آئے روز انہیں تختہ مشق بنانا ایک معمول بن چکا ہے،تو دوسری جانب امریکہ بھارت مشترکہ اعلامیہ بھارت کو کشمیری عوام اور بھارتی اقلیتوں کا خون بہانے اور ان کی مقدسات کی بیحرمتی کرنے کا لائسنز فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔عالمی برادری کب تک بھارتی جرائم پر آنکھیں بند کرکے مجرمانہ ذہینت کا مظاہرہ کرتی رہے گی؟کبھی تو بھارت کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا پڑے گا۔
Comments are closed.