مقبوضہ کشمیراورمنی پور ہندوتواکاشکار

 تحریر:محمد شہباز

منی پور اور مقبوضہ جموں وکشمیرکے لوگ اپنی الگ شناخت اور بھارتی ہندوتوا آبادکار نوآبادیاتی منصوبوں کے وجود کو خطرے سے بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی زیرقیادت حکومت کا مقصد آرٹیکل  370 کو ختم کرنا ہے جس کی حفاظت کیلئے منی پور کے قبائل لڑرہے ہیں، جس سے منی پور کی ہندو برادری میتی کو قبائلی زمین اورجائیداد خریدنے سے روکنا ہے جیسا کہ بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں آرٹیکل 370 کے ساتھ کیا تھا۔بھارت کا اپنے آئین پر عمل نہ کرنا اور مسئلہ کشمیر پر ا قوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی وہ محرک اور بنیادی وجہ ہے، جہاں سے پرتشدد مقامی جدوجہد جنم لے رہی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت مقامی لوگوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے اعلامیہ کا دستخط کنندہ ہے لیکن وہ ان کے حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیرکے لوگ اور منی پور کی قبائلی برادریاں ہندو بالادستی کی ذہنیت کا شکار ہیں جو ہندو برادری کے مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں۔ کسی بھی کمیونٹی کی مقامی حیثیت کو نشانہ بنانا؛ نقل مکانی، جبری انضمام، اس کے ورثے اور اداروں کی حوصلہ شکنی پہلے مرحلے میں کی جاتی ہے۔ یہ کام پہلے مقبوضہ جموں وکشمیر میں کیا گیا ہے اور اب منی پور میں بھی کیا جا رہا ہے۔ آبادکار نوآبادیات کا بنیادی مقصد، مستقل طور پر اس علاقے پر قبضہ کرنا ہے۔ آباد کار ریاستیں آباد کاروں کی کلاسوں کو بھرتی کرتی ہیں جو “کسی اور کی سرزمین پر ایک نئی ریاست قائم کرنے کے لیے اپنے ساتھ ایک مطلوبہ خودمختار استحقاق لے کر آتی ہیں۔” کشمیری عوام کے سیاسی تشخص کو مٹانا، مسلم اکثریتی برادری کو کمزور کرکے انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا کر، انہیں سیاسی اقلیت میں تبدیل کرنا، سیاسی فیصلہ سازی میں ان کے کردار کو کم کرنا۔ یہی خطرہ منی پور کے پہاڑی قبائل/ درج فہرست قبائل کے لیے بھی منڈلا رہا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کا مقصد صرف مسلم اکثریتی خطے کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنا اور بی جے پی کا وزیراعلی مسلط کر کے کشمیری عوام کو ان کی حقیقی قیادت سے محروم کرنا تھا۔ منی پور کے پہاڑی قبائل کو بھی اسی انجام کا خدشہ ہے۔ آرٹیکل 370 کے تحت باہر کے لوگوں کو مقبوضہ جموں وکشمیرمیں جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں تھی اور اسی آرٹیکل 371C کے تحت منی پور کے قبائلی علاقے میں باہر والے زمین نہیں خرید سکتے۔ لہذا ہندوں کی میتی کمیونٹی کو شیڈول ٹرائب میں شامل کرنے کے بعدوہ زمین خرید سکیں گے اور اپنے علاقوں میں اسی طرز پر آباد ہو سکیں گے جیسے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ہو رہا ہے جہاں آباد کار (ہندو/غیر مقامی) زمین/جائیداد خرید رہے ہیں۔ بھارت سیاسی سازشوں کے لیے پسماندہ اور اقلیتوں کی حیثیت کو استعمال کر کے انسانیت پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتا ہے جسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاںکہا جا سکتا ہے۔ بھارتی ریاست کے خلاف منی پور کا احتجاج صرف ایک جھلک ہے۔ جس سے بھارت الماری میں چھپا نا چاہتا ہے۔

شمال مشرقی بھارت سب سے زیادہ غیر مستحکم اور شورش سے متاثرہ خطہ ہے۔ میگھالیہ، منی پور، آسام میزورم، اروناچل پردیش اور ناگالینڈ، جن کو سات بہن ریاستیں بھی کہا جاتا ہے۔ ارچنا اپادھیائے نے اپنی کتاب ‘انڈیاز فرجائل بارڈر لینڈز’ میں لکھا ہے کہ شمال مشرقی بھارت کو واضح طور پر دنیا کے سب سے زیادہ غیر مستحکم علاقوں میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ناگالینڈ، منی پور، آسام اور تری پورہ خطے کی سب سے زیادہ پرتشدد ریاستوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ریاست منی پور میں 41.39% ہندو، 41.29% عیسائی اور 8.4% مسلمان ہیں۔ آر ایس ایس نے بھارت کے فرقہ وارانہ تنوع کی قیمت پر بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے مودی کے منصوبوں کی رہنمائی کی۔ اس طرح ایک ہندو ریاست اب ایک ہندوتوا پسند سیاست میں تبدیل ہو رہی ہے۔ 3 مئی 2023 سے منی پور میں دسیوں ہزار متاثرین، جن میں اکثریت عیسائیوں کی ہے، اپنے گھروں سے بھاگ چکے ہیں کیونکہ ان کے گھر اور کاروبار آگ کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ منی پور میں میتی اکثریتی کمیونٹی کے ذریعہ عیسائی شناخت / نشان والی ہر چیز پر حملہ کیا جارہا ہے۔ چورا چند پور ڈسٹرکٹ کرسچن گڈ ول چرچ کے شائع کردہ اعدادوشمار کے مطابق، 121 گرجا گھروں اور عمارتوں کو نذر آتش یاتباہ کیا گیا ہے۔ قبائلیوں کی ملکیت والے مکانات اورکاروباری مراکز سے قیمتی سامان لوٹنے کے علاوہ ان کی لاکھوں روپے مالیت کی املاک کو تباہ اورنذر آتش کیا گیا ہے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے ٹویٹ کیا، “منی پور جل رہا ہے۔ بی جے پی نے برادریوں میں دراڑیں پیدا کیں اور ایک خوبصورت ریاست کے امن کو تباہ کر دیا۔”

بنگلور کے میٹروپولیٹن آرچ بشپ پیٹر ماچاڈو کا کہنا ہے کہ منی پور میں عیسائیوں کو نشانہ بنانے / ظلم و ستم کی بحالی کو دیکھ کر بہت پریشان کن۔ گرجا گھروں / عیسائیوں کے گھروں کو آگ لگا دی گئی ہے، اور لوگ محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے پر مجبور ہیں۔ بڑی تعداد میں گرجا گھروں کی توڑ پھوڑ  اور انہیں نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ہلاکتوں اور تباہی کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ انٹرنیٹ کی معطلی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ترجمان آل انڈیا کیتھولک یونین جان دیال کا کہنا ہے کہ امپھال جو کہ منی پور کی راجدھانی ہے کے قریب دو اضلاع میں کوکی اور دیگر قبائلی عیسائی حملوں کا اصل ہدف ہیں اور جن گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے ان میں میتی کمیونٹی کے عیسائی بھی شامل ہیں۔

گوہاٹی کے آرچ بشپ ایمریٹس تھامس مینمپرمپل کا کہنا ہے کہ یکجہتی کے طور پرہم اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ غمزدہ ہیں جو تشدد کا شکار ہوئے ہیں اور اس کے نتیجے میں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہم ان تمام لوگوں کے ساتھ بھی اپنی گہری تعزیت کا اظہار کرتے ہیں جنہوں نے اس انسانی قتل عام میں اپنے قریبی عزیزوں کو کھو دیا ہے۔ تنازعات نے 45,000 سے زیادہ افراد کو بے گھر کیا، 230 دیگر کو زخمی کیا، تقریبا 1700 مکانات بشمول عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا یاتباہ کیا گیا ہے۔بائبلز فار دی ورلڈ جان پوڈائٹ اسٹیٹس کا کہنا ہے کہ پولیس کی طرف سے جمع کی گئی 200 سے زائد لاشوں کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ اور بہت سے ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ہمیں 120 سے زیادہ گرجا گھروں کی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں جن پر حملہ کیا گیا، تباہ کیا گیا، جلایا گیا یا لوٹ لیا گیا۔ گرجا گھروں کے خلاف تشدد غیرمتوقع تھا اور اب بھی ناقابل تصور تھا۔

اوپن ڈورز، برطانیہ میں مقیم کرسچن باڈی کا کہنا ہے کہ منی پور میں پرامن احتجاج کا ردعمل پرتشدد ہو گیا اور عیسائیوں کو خاص طور پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ دسیوں ہزار لوگ (عیسائی) کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد ظلم و ستم سے بچنے کے لیے گھنے جنگلوں میں بھٹک رہی ہے۔ صورت حال جاری رہی تو خانہ جنگی ناگزیر ہے۔ ہندوتوا حامی ریاستی اور مودی حکومت کی طرف سے خونریزی کو روکنے کے لیے کوئی پہل نہیں کی گئی۔ اگر خانہ جنگی ہوتی ہے تو صورت حال خوفناک ہو جائے گی، مزید جانیں ضائع ہوں گی، املاک تباہ ہوں گی اور مذہبی اقلیتوں پر کھلے عام ظلم ہو گا۔ امریکہ میں قائم نیشنل کیتھولک رجسٹر نے مختلف ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: بھارتی ریاست منی پور میں خونی نسلی تنازعہ میں عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 3 مئی 2023 کو تشدد پھوٹنے کے بعد سے اب تک 160 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پہاڑی علاقوںمیں تشدد اب بھی جاری ہے اور مواصلات بلکل بند ہے۔ تناو وسیع ہے اور لوگوں میں مایوسی کا بھرپور احساس ہے۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور بے گھر کئے گئے ہیں ۔ ریلیف کیمپوں اور مختلف پناہ گاہوں میں پڑے ہیں۔ ریاست بھر میں مختلف فرقوں کے 40 سے زیادہ گرجا گھروں کی بے حرمتی کی گئی ہے اور انہیں نذر آتش کیا گیا ہے اور قبائلی عیسائی اس کا شکار ہیں۔کرسچنٹی ٹوڈے رپورٹس کا کہنا ہے کہ اگر یہ قتل عام نہیں ہے تو کیا ہے؟ آل ٹرائبل اسٹوڈنٹ یونین منی پور کی طرف سے میتی کو شیڈولڈ ٹرائب کے طور پر شامل کیے جانے کے خلاف پرامن احتجاجی ریلی کے ردعمل میں گرجا گھروں کو جلا رہے ہیں اور اس میں ضرور کوئی مذہبی عنصر پایا جاتا ہے۔کیونکہ بھارت میں مسلمانوںا ور عیسائیوں کے علاوہ سکھوں اور نچلی ذات کے دلتوں کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اگر عالمی سطح پر ان خطرات کا بروقت تدارک نہیں کیا گیا تو بھارتی اقلیتوں کا قتل عام زیادہ دور نہیں ہے جس کی نشاندہی نسل کشی سے متعلق تنظیم جینو سائیڈ واچ کے بانی گریگوری اسٹینٹن  کرچکے ہیں۔

Comments are closed.