مقبوضہ جموں وکشمیر پربھارت کے غاصبانہ ،ناجائز،غیر قانونی اور غیر اخلاقی قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد آزادی میں جہاں لاکھوں کشمیری اب تک اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں ،وہیں ان قربانیوں کی بدولت ہی مسئلہ کشمیر سرد خانے سے نکل کر ایک عالمی مسئلے کی صورت میں آج موجود ہے۔اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں میں ترہیگام کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے سرخیل اور مسلح جدجہد کے بانی جناب محمد مقبول بٹ بھی شامل ہیں ،جنہیں 11فروری 1984 میں بھارتی حکمرانوں نے بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں تختہ دار پر چڑھا کر جیل کے احاطے میں ہی دفن کرکے اپنے لئے رسوائی اور ذلت کا سامان کیا ہے۔محمد مقبول بٹ تختہ دار پر چڑھ کر مرے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے امر بھی ہوگئے۔وہ بھارتی حکمرانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے بہادرانہ موت کو گلے لگاکر اس شعر کے عملی مصداق ٹھہرے
یہ امت احمد مرسل ہے اک شوق شہادت کی وارث
اس گھر نے ہمیشہ مردوں کو سولی کیلئے تیار کیا
جناب مقبول بٹ کی جلائی ہوئی آزادی کی شمع بھجی نہیں بلکہ روشن ہے اور اہل کشمیر اس شمع کو اپنے خون سے روشن تر رکھے ہوئے ہیں۔بھارتیوں نے ایک مقبول کو تختہ دار پر چڑھایا تو مقبوضہ جموں وکشمیر میں لاکھوں مقبول پیدا ہوئے،جنہوں نے اپنی جانیں تحریک آزادی پر نچھاور کیں۔ایک سیل رواں ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد آزادی اہل کشمیر کی چوتھی نسل کو منتقل ہوچکی ہے۔جناب مقبول بٹ ایک استعارہ ہیں،وہ شعور کی بیداری کیساتھ جدوجہد آزادی میں شامل ہوئے اور پھر قافلے کے سالار بھی ٹھہرے۔وہ رکے نہیں بلکہ آگے ہی بڑھتے رہے،نہ گرفتاریاں اور نہ ہی قید وبند کی صعوبتیں ان کے راستے میں حائل بنیں،ان میں ایک جنون تھا جو انہیں تہاڑ جیل کے تختہ دار تک لیکر گیا۔وہ اعلی تعلیم یافتہ تھے،چاہتے تو اعلی عہدے پر فائز ہوسکتے تھے،مگر وہ کسی اور دنیا کا باسی تھا اور ہمیشہ کیلئے امر ہونا چاہتے تھے،جس کیلئے جان کی بازی لگانا شرط اول ٹھہری۔سو انہوں نے دنیاوئی فوائد حاصل کرنے کے بجائے اپنا نام تاریخ میں لکھوانا مناسب اور ضروری سمجھا۔ان کے راستے میں مشکلات و مصائب کے پہاڑ بھی آئے مگر وہ فولادی عزم و حوصلے کے ثابت ہوئے۔کوئی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی رکاوٹ ان کے راستے میں حائل نہیں بنی۔انہوں نے جیسے چاہا ویسے ہی کردکھایا۔انہیں برطانیہ میں بھارتی سفارتکار رویندر مہاترے کے قتل میں ملوث ٹھہرایا گیا،جس میں ان کا نہ کوئی کردار تھا اور نہ ہی کوئی لینا دینا،بس بھارتی حکمران جناب مقبول بٹ کو تختہ دار پر چڑھا کر انتقام کی آگ بھجانا چاہتے تھے، سو انہوں نے انتقام میں اندھے ہوکر جناب مقبول بٹ کو 11فروری1984 میں دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں علی الصبح سولی پر چڑھا کر اہل کشمیر کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی ناکام اور بھونڈی کوشش کی،جناب مقبول بٹ کو معافی مانگنے کی بھی پیشکش کی گئی تھی جس سے انہوں نے پائے حقارت سے ٹھکرایا،انہوں نے پھانسی کے پھندے کو چومنا قبول کیا لیکن بھارتی حکمرانوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے صاف انکار کرکے بھارت کیساتھ ساتھ پوری دنیا پر یہ واضح کردیا کہ اعلی اور بلند نصب العین کیلئے جان کی بازی لگانا گھاٹے کا سودا نہیں ،سو انہوں نے رہتی دنیا تک مظلوم اور محکوم اقوام کو یہ سبق دیا ہے کہ اصولوں اور نصب العین کو جان بخشی کے بدلے قربان نہیں کیا جاسکتا۔
جناب مقبول بٹ نے جان قربان کرکے اہل کشمیر کو سر اٹھاکے جینے کا گر سکھایا ہے۔ان کی یاد میں اہل کشمیر پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں مکمل ہڑتال کرکے سرزمین کشمیر کے اپنے بہادر سپوت کو عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔جبکہ ان کے آبائی علاقہ ترہگام کپواڑہ میں ان کی برسی کے موقع پر ایک الگ اور عجیب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں،ان کے گھر میں ہفتوں قبل ان کی برسی منانے کی تیاری کی جاتی ہے،گھر کو باضابط طور پر سجایا جاتا ہے۔ان کی بزرگ والدہ شاہ مالی بیگم جو بلاشبہ کشمیری عوام کیلئے ماں کادرجہ رکھتی ہیں اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر کا اظہار کرتی ہیں،وہ بارہا یہ الفاظ دہرا چکی ہیں کہ انہیں اپنے بیٹے کی شہادت پر کوئی رنج و ملال نہیں،اگر ان کے دس بیٹے اور ہوتے تو وہ انہیں بھی مقبول کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتیں،کیا ایسی مائوں کی موجودگی میں بھارت اہل کشمیر کو عظیم اور لازوا ل قربانیوں سے مزیں تحریک آزادی سے دستبردار کراسکتا ہے؟اہل کشمیر کی مائیں جب تک مقبول بٹ جیسے پر عزم بیٹے جنتی رہیں گی،دنیا کی کوئی طاقت انہیں حق خود ارادیت کی تحریک سے باز نہیں نہیں رکھ سکتی۔جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے زیر انتظام فلاحی عام ٹرسٹ میں بطور استاد اپنے فرائض سر انجام دینے والے جناب مقبول بٹ آج بھی بھارتی حکمرانوں کے اعصاب پر بری طرح سوار ہیں۔جناب مقبول بٹ کی شہادت کے جب تیس برس مکمل ہورہے تھے تو اہل کشمیر کے ایک اور فرزند محمد افضل گورو نے بھی بھارتی پارلیمنٹ کے ایک جھوٹے اور من گھڑت کیس میں اسی تہاڑ جیل کی کال کوٹھری میں پھانسی کے پھندے کو خوشی خوشی چوما،جناب افضل گورو کی میت بھی تہاڑ جیل کے احاطے میں ہی دفن کردی گئی،یوں سرزمین کشمیر کے دو فرزندان توحید تہاڑ جیل کے احاطے میں اسودہ خاک سورہے ہیں اور بزبان حال کہہ رہے ہیں کہ بھارتی حکمرانوں کو ان کی لاشوں سے بھی ڈر اور خو ف کھائے جارہا ہے۔09 فروری 2013 میں صبح کی پھو پھوٹتے ہی جب افضل گورو کو چائے کا کپ پیش کرکے کہا گیا کہ یہ ان کی زندگی کی آخری چائے ہوگی،توان کے چہرے پر گھبراہٹ کے بجائے سکون و طمانیت تھی، انہوں نے بڑے اطمینان سے چائے پی لی،اس کے بعد ڈاکٹر کو ان کے چیک آپ کیلئے بلایا گیا،چیک آپ کے بعد ڈاکٹر نے اپنی جیل ڈائری میں لکھا کہ افضل گورو پر گھبراہٹ کے دور دور تک کوئی اثار نہیں تھے،دل کی دھڑکن معمول کے مطابق تھی اور ان کا چہرہ ہشاش بشاش تھا۔لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ اپنی زندگی کے اختتام کی جانب بڑھ رہے تھے،جناب افضل گورو خود پھانسی گھاٹ کی طرف چل کر گئے۔ان کی شہادت کے چند برس بعد تہاڑ جیل کے سابق پبلک ریلیشن آفسر سنیل گپتا نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب انہوں نے پھانسی کی اطلاع افضل گورو کو دی تو انہوں نے کہا تھا کہ اسے معلوم ہے۔ سنیل گپتا نے اپنے انٹریو میں خود اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنی پوری سروس میں افضل گورو جیسا بہادرشخص نہیں دیکھا ،جو یہ جاننے کے باوجود کہ انہیں تہاڑ جیل میں پھانسی دینے کیلئے لایا گیا ،وہ پھانسی کے دن تک نہ کسی گھبراہٹ کے شکار اور نہ ہی ان پر کوئی اضطرابی کفیت طاری تھی،میں جب بھی ان سے ملامجھے ان کے چہرے پر ہمیشہ اطمینان اور سکون ہی نظر آیا،یہ باتیں کرتے ہوئے سنیل گپتا رو پڑے،جس کی ویڈیو آج بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔محمد افضل گورو کو 13 دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر جھوٹے حملے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں بھارت کی خصوصی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔اس جھوٹے الزام میں جناب افضل گوروکو 09فروری 2013 میں جب پھانسی دی گئی تھی توبھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھارتی عوام کے ضمیر کو مطمئن کرنے کا جواز پیش کیا تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ محض اپنے عوام کو خوش کرنے کیلئے کیا تھا۔جس پر دنیا بھر میں انصاف کے اداروں نے بھارتی سپریم کورٹ کا مذاق اڑایا۔ حد تو یہ ہے کہ جناب افضل گورو کی پھانسی سے پہلے نہ تو اہلِ خانہ کیساتھ ان کی ملاقات کرائی گئی اور نہ ہی ان کا جسدِ خاکی ورثا کے حوالے کیا گیا۔ شہید محمد مقبول بٹ اور شہید محمد افضل گورو کو ان کے یوم شہادت پر خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے 09 اور11 فروری کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں مکمل ہڑتال کے علاہ کنٹرول لائن کی دونوں جانب اور دنیا بھر میں یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔یہ امر کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ دونوں شہید رہنماوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی فوجی قبضے سے آزادی کے مقدس مقصد کے حصول کیلئے اپنی قیمتی جانیں نچھاور کیں اور ناقابل تنسیخ حق، حق خود ارادیت کی جدوجہد میں مصروف عمل اہل کشمیر ان کی قربانیوں کے مقروض ہیں۔بلاشبہ انصاف اور انسانیت کے عالمی معیار کے برعکس بھارتی سپریم کورٹ کے غیر منصفانہ اور متعصبانہ طرز عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں آزادی پسند رہنماوں کو ایک ایسے جرم کی پاداش میں بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں پھانسیاں دی گئیں جو انہوں نے کبھی کیاہی نہیں تھا۔ اہل کشمیر کے ان دونوں فرزندوں نے بڑی بہادری سے پھانسی کے پھندے کو چوم کرشہادت اور ابدی سکون حاصل کرلیا۔ چاہے کچھ بھی ہو ،اہل کشمیرشہدا کے مشن کو جاری رکھیں گے اور بھارت کے فوجی طاقت کے سامنے کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ تحریک آزادی کشمیر بھارت کے ناجائز تسلط کے خلاف ایک عوامی بغاوت ہے،اور حق خودارادیت کا جائز مطالبہ مکمل طور پر اہل کشمیر کا اپنامطالبہ ہے اور مستقبل قریب میں اس کی کامیابی یقینی ہے کیونکہ بھارت کے جابرانہ اقدامات مزاحمتی تحریک کودبانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ غاصب بھارت کے خلاف برسر پیکار امیر حزب المجاہدین سید صلاح الدین احمد نے محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کو عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے کہا ہے کہ 9فروری 2013 اور 11 فروری 1984 بھارتی عدلیہ کے سیاہ ترین دن ہیں جب محض جھوٹے اور من گھڑت الزامات کے تحت سرزمین کشمیر کے دو سپوتوں کو تہاڑ جیل میں تختہ دار پر چڑھا کر پھر جیل کی چار دیواری کے اندر ہی انہیں دفنایا گیا۔یہ پھانسیاں نام نہاد بھارتی جمہوریت اور سکیولرازم کے دامن پر ایسے سیاہ دھبے ہیں جنہیں کسی صورت دھویا نہیں جاسکتا ۔اہل کشمیر کے ان دونوں سپوتوں کا مشن جاری ہے اور آزادی کی صبح تک جاری رہے گا۔بھارتی حکمرانوں نے جناب مقبول بٹ اور جناب افضل گورو کے اجساد کو تہاڑ جیل کے احاطے میں دفن کرکے بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔بھارتی حکمران سمجھتے تھے کہ ان اقدامات سے اہل کشمیر کو تحریک آزدای کشمیر سے دستبردار کرایا جائے ،مگر بھارتی حکمرانوں کے اندازے ہمیشہ کی طرح غلط ثابت ہوئے،اہل کشمیر نے جہاں اپنی جدوجہد کو ماند نہیں پڑنے دیا وہیں ایسے سرخیل اس تحریک آزادی پر قربان کئے کہ جن پر اپنے تو اپنے پرائے بھی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکے۔
انہی جری اور بہادر سپوتوں میں بشیر احمد پیر المعروف امتیاز عالم بھی شامل ہیں،جو چیتے کا جگر رکھتے تھے،جس نے ہمیشہ دشمن کو نہ صرف تگنی کا ناچ نچایا بلکہ اسی کے انداز میں قدم قدم پر جواب دیا۔ان کی دلیری کے قصے زبان زد عام ہیں۔انہوں نے کنٹرول لائن کو درجنوں بار اپنے پائوں تلے روندڈالا۔اس نے پوری جوانی تحریک آزادی کشمیر اور اس جدوجہد کی سرخیل حزب المجاہدین کی کامیابی کیلئے وقف کی تھی۔دشمن نے کئی بار انہیں گھیرنے کی کوشش کی،مگر دشمن کو ہر بار ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا،وہ ایک چھلاوے کی مانند تھے۔ان پر کچھ کر گزرنے کی دھن ہر وقت سوار رہتی تھی،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی مصلحت کو اپنے اوپرمسلط یا حاوی نہیں ہونے دیا۔ ان میں بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ انہوں نے جب بھی کسی معاملے پر اختلاف کیا،تو ڈنکے کی چوٹ پر کیا۔دشمن جب ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا ،تو سب سے پہلے ان کے برادر اصغر نذیر احمد پیر کو نوے کی دہائی میں بھارتی فوجیوں نے شہید کیا۔پھر ان کے والد بزرگوار جناب پیر سکندر کو بھی شہید کیا گیا،جب بزدل دشمن کا پیٹ اسے بھی نہ بھرا تو ان کے آشیانہ کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔البتہ یہ تمام بزدالانہ حربے امتیاز عالم کو اپنے مقصد حیات سے باز رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے،چونکہ وہ عزم وہمت کے کوہ ہمالیہ تھے،وہ جس مشن کو لیکر اٹھے تھے،اس کی آبیاری خون کے آخری قطرے تک جاری رکھی۔جب دشمن امتیاز عالم کا دو بدو مقابلہ نہیں کرسکا ،تو اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ہاتھوں انہیں اپنی سرزمین سے سینکڑوں ہزاروں میل دور مہاجرت کے سفر میں شہید کروایا۔یہ 20 فروری2023 تھا ،جب نماز مغرب سے فراغت کے بعد امتیاز عالم مسجد سے گھر کی جانب رواں دواں تھے،تو تاک میں بیٹھے بھارتی ایجنٹوں نے موقع پاکر انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا،جس کے نتیجے میں ایک بیقرار روح کو قرارآگیا اور وہ اپنے رب کی ابدی جنتوں کی جانب روانہ ہوئے۔ان کی شہادت کو بھارتی وزرات دفاع نے کریڈٹ کے طور پر لیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دشمن کے اعصاب پر کس قدر سوار تھے۔ان کی نماز جنازہ کے موقع پر ہر آنکھ آشکبار تھی،تب ہی جناب سید صلاح الدین احمد نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ امتیاز عالم نے ہمیشہ اصولی اختلاف کیا ،جو ان کا بڑا وصف تھا،یہ کسی بھی انسان کیلئے سب بڑا Complimentہے،جس کے سامنے دنیا کی جاہ و حشمت ہیچ ہے۔بلاشبہ امتیاز عالم اسی تمغے کے مستحق تھے۔حقیقت یہ ہے کہ اہل کشمیر نہ پہلے تھکے تھے،نہ آج تھکے ہیں اور نہ ہی وہ تھکنے کا نام لے رہے ہیں۔اتنی عظیم اور بے مثال قربانیوں کیساتھ اہل کشمیر نے پہلے بھی کھلواڑ نہیں کیا اور نہ ہی آج کرسکتے ہیں۔اہل کشمیر ان قربانیوں کے امین ہیں،جو حق خود ارادیت کیلئے دی جارہی ہیں۔05 فروری کو جب اہل کشمیر کیساتھ اظہار یکجہتی کیا جارہا تھا انسداد دہشت گردی عدالت نے شہید امتیاز عالم کے قاتل کو دو بار سزائے موت اور دیگر دو کو بالترتیب چالیس چالیس برس سزا سناکر انصاف کے تقاضے پورے کیے ہیں،جس سے یقینا ان کی روح کو قرار آچکا ہوگا۔
Comments are closed.