سرداربہادر علی خان ۔۔ تحریک حق ملکیت اراضی کا سرخیل

تحریر: بشیر سدوزئی

بیسویں صدی کے آغاز پر سردار بہادر علی خان سدھن نے جموں و کشمیر کی ریاست کے طاقت ور اور ظالم حکمرانوں کے ساتھ عوامی تحریک اور قانونی جنگ جیت کر تاریخ کشمیر میں نئے باب کا اضافہ کیا۔ اگر سردار بہادر علی خان یہ تحریک اور قانونی جنگ شروع نہ کرتا تو کشمیر خصوصا پوبچھ کے عوام زمانہ قدیم کی طرح ڈوگروں کے سامنے زر خرید غلام کی طرح رہتا اور اس زمین پر ان کا کوئی قانونی حق نہ ہوتا ۔ مورخین نے لکھا ہے امرتسر میں 57 لاکھ میں کشمیر خریدنے کے بعد ڈوگرے اس گھمنڈ میں تھے کے اس رقم سے صرف کشمیر کا اقتدار ہی نہیں پوری زمین اور عوام بھی خرید لئے ہیں ۔

اسی سوچ کے تحت ڈوگروں کا عوام کے ساتھ رویہ بھی مالک اور غلام جیسا ہی تھا ۔ مگر سدھنوں نے آسانی سے ڈوگروں کی اس حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا، 1830ء کو سردار شمس خان سدھن کی تحریک آزادی کو ڈوگروں نے تشددد اور ریاستی طاقت سے دبا دیا مگر 1902ء میں سردار بہادر علی خان سدھن نے پرامن عوامی تحریک حق ملکیت آراضی اور عدالتی جنگ سے اور 1947ء میں سردار محمد ابراہیم خان نے عوامی انقلاب سے بلآخر ڈوگروں کے گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا۔

ڈیڑھ سو سال کے دوران وقفے وقفے سے شروع ہونے والی ان تینوں تحریکوں میں ہزاروں سدھن شہید ہوئے مگر انہیں نے ڈوگرہ شاہی کے سامنے امن سے سر تسلیم خم نہیں کیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1820میں کشمیر پر قبضہ کیا کر کےجموں اور پونچھ اپنے وفادار ملازمین جموں کے ڈوگرہ خاندان کے بھائیوں(گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سوچیت سنگھ) کو بطور تحفہ دیا، یہ تینوں بھائی پونچھ کے علاقے کو اپنی موروثی جائیداد سمجھ کر بانٹتے، ان جاگیروں کی تمام آراضی کو ذاتی ملکیت اور ان کے باسیوں کو اپنا کاشتکار /مزارع سمجھنے لگے۔انہوں نے پونچھ کے قبائل پر ناجائز ٹیکسزز لگائے اور نہ دینے کی صورت میں سختیاں شروع کر دی ۔ لیکن پونچھ کا بڑا اور زور آور قبیلہ سدھن جو اس وقت کی تحصیل سدھنوتی میں اکثریت میں تھا کا ڈوگروں کے ساتھ ہر دور میں ٹکراو اور مقابلہ ہوتا رہا ۔حتی کہ ڈوگروں نے سدھنوں کی نسل کشی اور مکمل طور پر مفلوج و مفلوک الحال کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کچھ وقفے کے بعد سدھنوں اور ڈوگروں کا ٹاکرہ دوبارہ ہوتا۔ کشمیر پر رانجیت سنگھ کے قبضے کے وقت پونچھ میں آپ راجی نظام تھا۔سدھنوں کا اپنا نظام حکومت اور مرکز منگ تھا۔جہاں مرکزی سردار سردار شمس خان سدھن کا کورٹ لگتا۔ آج کے نظام حکومت میں اس کو دار الحکومت کہا جا سکتا ہے ۔

اٹھارہ سو چودہ  کے ایک معائدے کے تحت سردار شمس خان لاہور دربار میں وزیر اعظم دھیان سنگھ کا مشیر مقرر ہوا ۔اسی معائدے کے تحت منگ میں سدھنوں کے مرکز کے میں ڈوگروں نے چھاونی قائم کرلی۔1830ء میں لاہور دربار سے اختلاف کے باعث سدھنوں نے بغاوت کر لی اور شمس خان کے حکم پر اس کے دو کمانڈروں سبز علی خان اور ملی خان کی فوجوں نے مختصر جنگ کے بعد ڈوگرہ چھاونی کمانڈر چین سنگھ ہنسیانی سمیت 200 فوجیوں کو گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا۔ گلاب سنگھ نے ایک سنئیر کمانڈر کی قیادت میں فوج کو منگ روانہ کیا تاکہ قیدی سپائیوں کو رہا کرانے کے علاوہ، سردار شمس خان سدھن کو بھی عبرت کا نشان بنایا جائے مگر سکھ فوجوں کو ناکامی اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

رنجیت سنگھ کی فوجوں کو سدھن سرداروں کو مطلع بنانے کے لیے چار مرتبہ ہزاروں فوجیوں اور بھاری اسلحہ کے ساتھ حملہ کرنا پڑھا جب کہ ایک حملے کی قیادت خود رانجیت سنگھ نے کی۔ بلاآخر ڈوگروں نے منگ اور سدھنوتی کو فتح کیا ۔ سردار شمس خان سدھن سمیت ہزاروں کو شہید، سردار سبز علی خان اور ملی خان سمیت 27 سدھن سرداروں کی منگ کے مقام پر زندہ کھالیں کھنچ کر شہید کیا گیا ۔ اور اس بات کا اعلان کیا کہ جو کوئی بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس کی حکومت کے خلاف آواز اٹھائے گااس کا بھی یہی حال ہو گا۔گلاب سنگھ کے اس عمل سے علاقے میں خوف و حراس کی ایک لہر نے جنم لیا جس کا اثر عرصہ تک باقی رہا

16مارچ 1846کو گلاب سنگھ نے انگریز سرکار سے بدنام زمانہ معائدہ ’امرتسر کے تحت کشمیر کو سکہ راج الوقت 75 لاکھ میں خرید کر جدید ریاست جموں و کشمیر کی بنیاد ڈالی۔ گلاب سنگھ کے حکمران بنتے ہی ریاست جموں و کشمیر کے علاقوں کوعوام سمیت اپنی ملکیت سمجھا جانے لگا۔ خصوصا مسلمانوں پر بہت مظالم شروع ہو گئے اور ان کو بنیادی انسانی اور مذہبی حقوق سے بھی محروم کردیا گیا ۔ منشی محمد دین فوق نے لکھا ہے کہ 1956 تا 1957 بکرمی بمطابق 1899ء تا 1900ء پونچھ میں زمین کے بندوبست کا سلسلہ شروع ہوا۔

حکومت اس کام کے ماہر انگریز سر والٹر لارنس، مسٹرگوڈنیف، مسٹر ٹرنیچ اور مسٹر ہملٹن کو ایک کے بعد ایک بطور مہتمم بندوبست مقرر کرتی رہی۔تحصیل حویلی اور مہنڈر کے بندوبست کا کام دو سال میں مکمل ہوا اور 1902ء میں تحصیل سدھنوتی میں شروع ہوا۔ مولانا میر عالم خان نے لکھا ہے کہ تراڑ بمقام خانقاہ شیخو دادا سپرنٹنڈنٹ بندوبست اور بہادر علی خان کی اس بات پر تلخی ہوئی۔ سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ بندوبست کے بعد راجہ صاحب اس ساری زمین کا مالک بن جائے گا جب کے زمین دار صرف کاشت کار کے طور پر زمین کی دیکھ بھال اور کاشت کاری کرے گا۔

حق ملکیت راجہ پونچھ کی ہو گی ۔سردار بہادر علی خان نے اس سے سخت اختلاف کیا اور کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ سپرنٹنڈنٹ نے بھی سختی سے کہا کہ ” زمین کے مالک راجہ صاحب ہی ہوں گے ” ہر کسی کی یہی حثیت ہو گی جو موچی کی ہے خواہ آج کتنا ہی بڑا جاگیردار کیوں نہ ہو سردار بہادر علی خان نت بندوبست کو روکنے اور حکومت کے ساتھ تعاون ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ پوری قوم نے سردار بہادر علی خان کو مکمل تعاون کا یقین دلایا ۔

یہ ڈوگرہ حکومت کے خلاف سدھنوں کی دوسری بغاوت تھی ۔اس وقت کی بغاوت کی قیادت سردار بہادر علی خان کر رہا تھا مگر یہ جنگ اسلحہ کی نہیں پرامن، عوامی تحریک اور قانون کی جنگ شروع ہوئی ۔نہ صرف سدھنوتی بلکہ باغ میں بھی گاوں گاوں تحریک حقوق ملکیت کے جلسے اور احتجاج کر کے عوام کو اس بندوبست کے نقصانات سے آگاہ کیا گیا اور حکومت تک عوام کی آواز پہنچائئ۔اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف سدھن بلکہ سدھنوتی اور باغ کے تمام قبائل میں سیاسی بیداری کی لہر بیدار ہوئی۔

سردار بہادر علی خان نے عوامی مہم کے ساتھ عوام کے مطالبات اعلی حکام تک پہنچانے کے لئے راجہ پونچھ بلدیو سنگھ سے ملاقات کر کے عوام کے جذبات کا احترام کرنے کی درخواست کی، مایوسی کی صورت میں ریذیڈنٹ کشمیر سے ملاقات کی ، مثبت جواب نہ ملنے پر کمشنر راولپنڈی سے ملاقات کر کے مداخلت کی درخواست کی مگر راجہ بلدیو نے کمشنر راولپنڈی کی سفارش ماننے سے انکار کر دیا۔تو پھر دوستوں کے مشورے سے قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے حکومت ہندوستان کی عدالت لاہور میں حق ملکیت اراضی کا دعوی دائر کیا۔ اس دور میں ریاست پونچھ کے عدالتی معاملات پہنجاب سے وابستہ رکھے کئے تھے۔ لاہور کی عدالت کو ایسے مقدمات سننے اور فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل تھا۔

اس تحریک حق ملکیت اور مقدمہ کے تیس سال بعد محمد دین فوق نے ” تاریخ اقوام پونچھ” لکھی تھی تاریخ مرتب کرنے کے لئے گزرے 30 سال زیادہ طویل یا زمانہ قدیم میں نہیں آتے کہ درست معلومات دستیاب نہ ہو لہذا اس تاریخ اور تحریک کی درست معلومات کے لیے محمد دین فوق کے تحریر سب سے زیادہ مستند مانی جاتی ہے ۔وہ لکھتا ہے کہ ” پونچھ میں بندوبست کا آغاز ہوا تو زمین داروں کے حقوق ملکیت کی پامالی دیکھ کر سردار بہادر علی خان سدھن سکنہ کھڑک نے حکومت ہند کے پاس دعوی دائر کر دیا” مسٹر سکھدیو سنگھ نے” پونچھ تاریخ و ثقافت ” مولوی میر عالم نے ” تاریخ آزادی کشمیر ” میجر طلاء محمد خان سدوزئی نے ” مخزن طلاء، سید محمود آزاد، نے ” تاریخ کشمیر ” سردار عارف سدوزئی نے” تاریخ سدھن قبائل” ، بشیر سدوزئی نے ” پونچھ جہاں سروں کی فصل کٹی ” اور سید بشیر حسین جعفری نے بھی اپنی تصنیف ” تاریخ سدھن (سدوزئی ) قبیلہ ” میں اس تحریک کے حوالے سے تفصیل سے لکھا ہے ۔مقدمہ کی پیروی کے لیے ایک معروف انگریز وکیل’’ پٹون‘‘ کی خدمات حاصل کیں جس کو اس وقت دو ہزار روپے فیس ادا ہوئی۔اس وقت درمانی درجہ کے سرکاری ملازم کی تنخواہ دو روپے ماہانہ تھی۔
مقدمہ کی پیروی پر اٹھنے والے اخراجات سردار بہادر علی خان کے پانچ بھائیوں کے علاوہ بھنگو (ہجیرۃ) کے سردار مستانہ خان اور ٹائیں کے سردار اسماعیل خان نے برداشت کیے۔سردار مستانہ خان اس زمانے میں مری میں ٹھیکیدار، ( بلڈر) تھے ۔ ان کے خاندان کی آج بھی مری میں عمارتیں اور جائیداد موجود ہے ۔ ڈوگرہ مہاراجہ ریاست جموں و کشمیر اور راجہ پونچھ نے سردار بہادر علی خان کو وادی پرل بطور جاگیر اور پونچھ ریاست میں بطور نائب وزیر اعظم تعیناتی کی لالچ دی کہ وہ اس مقدمہ سے دستبردار ہو جائیں۔ انہوں نے نہ مانا تو ان کے خاندان کے افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں ان کے بھتیجے اور دیکر ، سردار مختار خان، سردار حیات خان، سردار مناظر علی خان، سردار نواب خان ،سردار محمد شیر خان، سردار فقیر خان، سردار مدد خان، سردار محمد بخش اور دیگر شامل تھے۔

سردار بہادر علی خان نے اس ناانصافی کے خلاف اپنے وکیل کے ذریعے ریذیڈنٹ کشمیر کو تار بھیجی کہ گرفتار افراد کو غیر مشروط رہائی نہ دی گئی تو مقدمہ دائر کیا جائے گا ۔ ریذیڈنٹ کی مداخلت پر گرفتار لوگوں کو رہا کیا گیا۔ سردار بہادر علی خان مقدمہ کی پیروی کے لیے میلوں پیدل سفر کرتے تھے ۔سردار اسماعیل خان اور سردار مستانہ خان اس سفر میں اکثر ان کے ہمراہ ہوتے۔ وکیل کی مشاورت پر چند ضروری کاغذات کے لیے وہ لاہور سے واپس راولاکوٹ کی طرف آ رہے تھے کہ راستے میں مہاراجہ ریاست اور راجہ پونچھ کے حواریوں نے ان کو زہر کھلا دیا جس کے باعث تحریک حق ملکیت کے بانی اور داعی سردار بہادر علی خان بہارہ کہو کے قریب سترہ میل کے مقام پر انتقال کرگئے ۔

سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر سردار شریف نے ان کے انتقال کی تاریخ 25دسمبر 1902 لکھی ہے جب کہ مولوی میر عالم نے 3-پوہ 1959بکرمی ( دسمبر 1902ء یا جنوری 1903ء) لکھا ہے ۔ بعض روایات ہیں کہ ان کے جوتے میں زیر ڈالا گیا تھا اور یہ خیال بھی ہے کہ راستے میں جہاں انہوں نے کھانا کھایا وہاں زیر دیا گیا۔ میجر طلاء محمد خان سدوزئی، منشی محمد دین فوق ، سید محمود آزاد، سردار عارف سدوزئی، جسٹس محمد شریف خان اور بشیر سدوزئی اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ سردار بہادر علی خان کو راجہ بلدیو سنگھ نے اپنے آدمیوں کے ذریعے زیر کھلا کر ہلاک کیا۔ سردار بہادر علی خان کی وصیت تھی کہ یہ مقدمہ جیتنے سے پہلے میرا انتقال ہو گیا تو اس علاقے میں مجھے نہ دفنایا جائے۔

لہٰذا ان کی وصیت کے مطابق ان کو ٹائیں کے مقام پر دفن کیا گیا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بھائی سردار گوھر علی اور سردار اسماعیل اس مقدمہ میں دوسروں کے ساتھ پیش پیش رہے۔جب کہ سردار مستانہ خان بطور مالی سرپرستی کرتے رہے مولوی میر عالم نے لکھا ہے کہ اس مقدمہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ، اگرچہ ملکیت لفظی نہ مل سکی مگر معنی کے اطوار سے ملکیت کے سب حقوق مل گئے اور خانہ ملکیت میں حق آسامی درج کرنے کی اجازت مل گئی۔حق آسامی مالک کی طرح داخلی اور خارجی سب حقوق کا زمین دار کو مالک قرار دیا گیا۔

مسٹر سکھدیو سنگھ نے لکھا ہے کہ” 1906ء میں بندوبست بھی مکمل ہوا اور فیصلہ بھی، اس تحریک سے زمین پر کسی کی بھی ملکیت تسلیم نہیں کی گئی۔اپنا حق تسلیم کرانے کے لئے ریاست کے طول و عرض میں عوام نے بہت بڑا ایجی ٹیشن چلایا مگر حکومت نے سختی سے دبا دیا ۔ اس تحریک سے فائدہ یہ ہوا کہ 1908ء میں ریذیڈنٹ کشمیر جب پونچھ آئے تو انہوں نے لفظ ” اسامی” درجہ دھی تسلیم کیا جو زمین کی ملکیت کا اختیار دیتا ہے ” ۔ ایک اور جگہ لکھا کہ ” زمین کے بندوبست کی اصلاحات میں کامیابیوں کا سہرا سدھنوں کے سر ہے یہاں کے لوگوں کی طبعیت ہمیشہ آزاد اور سرکش رہی ہے ” سردار بہادر علی خان سدھن کے ساتھ اس میں تعاون کرنے والوں کی طویل فہرست ہے جو ان کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے جن کے حوالے اوپر دئے گئے ہیں ۔

سردار بہادر علی خان حق ملکیت کی یہ تحریک نہ شروع کرتے تو زمین دار راجہ بلدیو سنگھ کے کاشت کار ہوتے۔ان کو کسی بھی وقت گھروں اور زمینوں سے بے دخل کیا جا سکتا تھا۔سردار بہادر علی خان اپنے حوصلہ، جرات، بہادری، دلیری ،ہمت سیاسی تدبر اور بے باکی کی وجہ سے ڈوگروں کے ساتھ اس مرتبہ عوامی اور قانونی جنگ لڑ کر ان کو شکست دی اور پونچھ کے عوام کو ان کے اباواجداد کی زمینوں پر ان کا حق ملکیت تسلیم ہوا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں حکومت ہند کو ہدایت کی تھی۔ عدالت کی ہدایت پر انگریز حکومت نے اپنے ریذیڈنٹ کشمیر کو خصوصی طور پر اس مسلے کو حل کرنے کے لئے 1908ء میں پونچھ بھیجا جس نے عدالتی فیصلے کی روشنی میں یہاں کے عوام کی خواہش کے مطابق فیصلہ کیا ۔اس تحریک کی وجہ سے سردار بہادر علی خان عوام میں اس حد تک مشہور ہوئے کہ لوگوں نے ان کے کردار اور شخصیت پر لوگ گیت اور مختلف اشعار لکھے۔ جن کو خواتین اور بچے خوشی کے موقع پر گھاتے چند اشعار یہاں پیش خدمت ہیں ۔

“بہادر علی خان نی خچری نے گلے وچ سیلی
لڑیا بہادر علی خان تے لگی رہی حویلی
بہادر علی خان نی خچری نے متھے اپر تارا
اگے اگے بہادر علی خان تے پچھے سدھن سارا
مہاڑے چنگے چڑوٹے ٹائیاں لایا ڈیرہ
ساری پونچھ روئے تے لگا رونے دیرا

سابق چیف جسٹس سردار شریف خان صاحب نے ٹائیں میں سردار بہادر علی خان کا مزار تعمیر کرایا ۔ جب میں نے اس علاقے کا دورہ کیا تو مزار تک سڑک نہیں تھی ۔ اس وقت جنرل انور خان صدر آزاد کشمیر تھے ۔ ان کے ساتھ ایک ملاقات میں، میں نے ان سے شکایت کی کہ سردار بہادر علی خان کے مزار کے سامنے والی پہاڑی پر آپ کا گھر ہے وہاں تک تو پختہ سڑک ہے مگر اس قومی ہیرو کے مزار تک سڑک نہیں جہاں لوگ آنا چاتے ہیں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے نہیں آ پاتے ۔جنرل صاحب نے وعدہ کیا کہ دوسرے مرتبہ آپ مزار تک گاڑی پر ہی آئیں گے ۔ دوسری مرتبہ جانے کا اتفاق نہیں ہوا مگر سنا ہے کہ مزار تک پختہ سڑک تعمیر ہو چکی ہے۔

Comments are closed.