مظفرآباد:پروفیسر نذیر احمد شال تحریک آزادی کشمیر کے متحرک سفیر تھے اور وہ موت کی آخری سانس تک اپنی بھر پور وابستگی نبھاتے رہے۔ اہل کشمیر ایک سفیر سے محروم ہوگئے البتہ ان کا ادھورا مشن جاری رکھاجائے گا۔
ان خیالات کا امیر حزب المجاہدین اور چیئرمین متحدہ جہاد کونسل سید صلاح الدین احمد نے پروفیسر نذیر احمد شال کی وفات پر اپنے تعزیتی بیان میں کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سرزمین کشمیر کے شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر شال 1991 میں بھارتی مظالم کے نتیجے میں اہلخانہ سمیت اپنے مادر وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور مملکت خداداد پاکستان ان کا پہلا مسکن ٹھرا۔چونکہ وہ اعلی تعلیم یافتہ تھے اور مادر وطن پر بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کے خاتمے کیلئے ان کے رگ رگ میں آزادی کی تڑپ موجزن تھی،لہذا سکون سے گھر بیٹھنا انہیں پسند نہیں تھا۔وہ صوتی محاذ پر سرگرم عمل ہوگئے۔سب سے پہلے کشمیر پریس انٹر نیشنل کے چیف ایڈیٹر اور روز نامہ کشمیر مرر کے سربراہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔بعدازاں بطل حریت سید علی گیلانی کے آزاد کشمیر و پاکستان چیپٹر میں نمائندگی بھی کی اور جنرل سیکرٹری رہے۔2004 میں وہ برطانیہ گئے جہاں کشمیر سنٹر لندن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تعینات ہوئے۔وہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کیساتھ بھی وابستہ رہے ۔
سید صلاح الدین احمد نے کہا کہ پروفیسر شال گزشتہ کچھ عرصے سے گردوں اور سانس کے عارضے میں مبتلا تھے ،جس کے بعد وہ لندن کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے۔جہاں گزشتہ رات وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔بستر مرگ پر بھی وہ تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کیلئے دعا گو تھے۔ان کی رحلت تحریک آزادی کشمیر کے سفارتی محاذ پر ایک بڑا نقصان ہے،یہ ایک بڑا خلا ہے جس سے پر کرنا شائد ممکن نہیں ہوگا ۔البتہ آزادی کے راستے میں جانی و مالی قربانیاں دینے والے ہی تاریخ اور تحریک میں امر ہوجاتے ہیں ۔سید صلاح الدین احمدنے مرحوم نذیر احمد شال کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لواحقین بالخصوص ان کی غمزدہ اہلیہ اور بچوں کے ساتھ تعزیت و ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم رہنما کی بلندی درجات کیلئے دعا کی۔
Comments are closed.