اسلام آباد: جنونی اور قاتل انسان کا اس کے سوا کوئی نظریہ نہیں ہوتا کہ اس نے ہر حال میں انسانی خون سے پیاس بجھانی ہوتی ہے،یہ نطریہ چاہیے انفرادی ہو یا اجتماعی،مقصد ہر حال میں لوگوں کو ان کی زندگیوں سے محروم کرنا ہوتا ہے۔ یہ جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پرامریکہ کی جانب سے ایٹمی حملہ ہو، ہٹلرکا انسانوں کو مارنا ہو یا اب روئے زمین پر اسی ہٹلر کے پیروکار نریندا مودی ہو،اس کا واحد مقصد اور نظریہ معصوم انسانوں کو ان کی زندگیوں سے ہر حال میں محروم کرنا ہے۔نریندرا مودی آر ایس ایس کے نظریہ کا قائل اور اس کا بنیادی ممبر ہے جبکہ آر ایس ایس نازی ازم کی علمبردار ہے۔ آر ایس ایس کا نظریہ اکھنڈ بھارت ہے ۔جس میں صرف اور صرف ہندئو ں کی بالا دستی ہو۔مودی آر ایس ایس کے ماحول میں پلا بڑا ہے۔ کئی برس قبل اپنے ایک انٹریو میں مودی اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اس نے پوری زندگی بھیک مانگ کے کھایا ہے،اسی انٹریو میں یہ بھی کہتا ہے کہ وہ بچپن میں تمام خوشیوں سے محروم رہ چکا ہے۔
طب کی دنیا میں ایسے لوگ نفسیاتی مریض کہلاتے ہیں،اور اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ مودی ایک نفسیاتی مریض ہے،دوسرا یہ کہ آر ایس ایس کی تربیت کا ہی اثر ہے کہ مودی ہر حال میں اپنے ہندتوا ایجنڈے پر عملدرآمد کرنا چاہتا ہے۔جس کا مقصد مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔جس کا عملی مظاہرہ بھارتی ریاست گجرات میں دنیا دیکھ چکی ہے،
سال 2022 میں2500 مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے گئے، یہ مسلم کش فسادات 27 فروری 2002 کو گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس ٹرین جلانے کے بعد بھڑک اٹھے تھے ۔نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا،حاملہ مسلم خواتین کے پیٹ چاک کرکے ان کی کوکھوں میں پلنے والے بچوں کو بھی آگ کی نذر کیا گیا،مسلمانوں کو قتل کرنے کے علاو ہ ان کی خواتین کی آبروریزی بھی کی گئی۔230 مساجد اور 274 مزارات کو جلا کر راکھ کیا گیا۔جبکہ مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹا گیا،ریاستی پولیس مسلمانوں کو بچانے کے بجائے ہندو بلوائیوں کی حفاظت کرتی رہی،ہندو انتہا پسندوں کو پانچ روز تک کھلے عام مسلمانوں کا خون بہانے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔یہ قتل عام کرنے والا کوئی اور نہیں صرف مودی تھا،جو اس وقت گجرات کا وزیراعلی تھا۔ گجرات قتل عام کے وقت اٹل بہاری واجپائی بھارتی وزیراعظم تھے،جبکہ ایڈوانی وزیر داخلہ،ایڈوانی تو خاموش رہا،اور کئی دنوں کے بعد جب گجرات کی راکھ سے دھوان اٹھنا بند ہوگیا تھا،گجرات کے دورے پر گیا تھا،لیکن واجپائی سے نہیں رہ سکا،انہوں نے گجرات مسلم کش فسادات کے فورا بعد ٹی وی پر بھارتی عوام سے اپنے خطاب میں گجرات مسلم کش فسادات کو بھارت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیا۔اور بقول سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سہناجو کہ واجپائی کابینہ میں شامل تھے، واجپائی مودی کو ہٹانا چاہتے تھے،لیکن ہندو انتہا پسند غالب آ گئے،جس کے باعث واجپائی اپنے منصوبے پر عملدر آمد نہیں کرسکے۔
2014 میں بی جے پی اور مودی نے ہندو انتہا پسندی کے منصوبوں کو عملانے کیلئے گجرات سے نکل کر بھارت کے مرکز یعنی دہلی پر برسر اقتدار آنے کے خواب دیکھے،اس کیلئے ایڈوانی جیسے کٹر ہندو کو بھی نظر انداز کیا گیا،مودی وزارت عظمی کی کرسی تک بہ آسانی پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ایڈوانی کو پس پردہ جانا پڑا،مودی بلا شرکت غیرے راج سنگھا سن پر فائز ہوا۔جو کام کٹر ہندو بھی نہیں کرسکے،وہ کام مودی نے اکیلے کرنے کی ٹھانی،مودی کا پہلا دور حکومت گوکہ کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیئے بغیر اختتام پذیر ہوا،مگر ساتھ ہی دوسرے دور حکومت کی منصوبہ بندی کی جاچکی تھی۔ 2019 میں مودی کو بھاری بھر کم مینڈیٹ دلایا گیا،بی جے پی کو 303 سیٹیں ملی،مودی نے اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے کھل کر کھیلنے کے عزائم ظاہر کئے،سب سے پہلے سینکڑوں برس پرانی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرانے کا اپنی ہی سپریم کورٹ سے تاریخ کا بدتریں فیصلہ کرایا گیا، بدلے میں رنجن گوگوئی نامی چیف جسٹس کو ریٹائر منٹ کے دوسرے ہی دن بھارتی راجیہ سبھا کا ممبر بنوایا گیا۔ابھی اس متنازعہ فیصلے پر گرد بھی نہیں بیٹھی تھی کہ 2019 ء میں 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے مقبوضہ جموں کشمیرکو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ مودی چونکہ اپنے منصوبوں پر ایک کے ساتھ ایک پر عملدرآمد کرتا جارہا تھا کہ بھارتی مسلمانوں کو ان کی شہریت سے محروم کرنے کیلئے متنازعہ شہریت ترمیمی بل بھارتی پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا۔جس میں بھارتی مسلمانوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے کہا گیا،بھارتی مسلمانوں نے اپنے آپ کو دیوارکے ساتھ لگانے کے مودی منصوبے کو بھانپ لیا،انہوں نے پورے بھارت میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا،تو فروری 2020 ء میں دہلی میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی،52سے زائد مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ان کی مساجد،مدارس اور درگاہوں کے علاوہ جائیداد و املاک کو آگ کی نذر کیا گیا۔اخلاق احمد،پہلو خان اورتبریز انصاری سمیت بیسیوں مسلمانوں کا خوں ہجومی تشدد میں بہایا گیا،جس سے ماب لینچنگ کہا جاتا ہے۔گجرات فسادات کو دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی نریندر مودی کی سرپرستی میں ہندو بالا دستی کے مذموم عزائم کے ساتھ بھارت مسلمانوں کی نسل کشی کے ہولناک راستے پر گامزن ہے۔جس کی نشاندہی جینو سائڈ واچ کے سربراہ اسسٹنٹن گویگری بھی کرچکے ہیں۔
پوری دنیا مودی کی ان مجرمانہ سرگرمیوں پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔مودی نے تحریک آزادی کشمیر کی پوری قیادت کے علاوہ ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند کردیا،صف اول کی پوری قیادت بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید کردی گئی۔جہاں اس سے عادی مجروں کے ساتھ رکھا گیا ہے۔کشمیری قیادت کو تمام بنیادی سہولیات بشمول انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ان میں ایک سرخیل محمد یاسین ملک بھی ہیں،جن پر بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی این آئی اے کی جانب سے ایک من گھڑت ، بے بنیاد اور فرضی مقدمہ قائم کیا جاچکا ہے۔
عدالت کے جج سنجیو سنگھ نے محمد یاسین ملک پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے انہیں مجرم قرار دیا ہے،اس سے پہلے محمد یاسین ملک نے جج سے مخاطب کرتے ہوئے کسی وکیل کے بغیر اپنا کیس لڑنے کی استدعاکی،روسٹرم پر آئے اور پھر عدالت کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر بھگت سنگھ اور گاندھی انگریزوں کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑنے پر مجرم ہیں توپھر یاسین ملک بھی مجرم ہیں اور اگر وہ مجرم نہیں تو یاسین ملک بھی مجرم نہیں ۔19 مئی کو جناب یاسین ملک تنہا این آئی اے کی عدالت میں پیش ہوئے،اور پھر سخت سیکورٹی میں انہیں دوبارہ تہاڑ جیل لے جایا گیا۔مگر جاتے ہوئے جو ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی،اہل کشمیر کا یہ سرخیل اس ویڈیو میں پورے بھارت پر بھاری نظر آئے،ان کی بدن بولی اور اعتماد یہ بتا رہاتھاکہ بھارت اپنے تمام تر ظلم و جبر کے باوجود اہل کشمیر کے بیٹوں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے میں پہلے بھی ناکام رہا،آج بھی ناکام ہے اور مستقبل میں بھی بھارت اور اس کے حواریوں کو ذلت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
یاسین ملک مسلح جدو جہد کے بانیوں میں سے ہیں،1987 کے ڈھونگ انتخابات کے نتیجے میں سرزمین کشمیر کے فرزندوں نے جب بیلٹ کے بجائے بلٹ سے مسئلہ کشمیر کو سرد خانے سے نکالنے کا فیصلہ کیا،تو جناب ملک بھی ان میں شامل تھے۔وہ پہلے پہل سرزمین کشمیر کے فرزند اور جدوجہد آزادی کے روح روان سید صلاح الدین احمد کے محافظ کے طور پر جانے گئے،پھر انجینئر اشفاق مجید وانی،شیخ عبدالحمید اور جاوید احمد میر کے ساتھ لبریشن فرنٹ کی بنیاد ڈالی،اشفاق مجید وانی اولین چیف کمانڈر چنے گئے،مارچ 1990 ء میں ان کی شہادت اور شیخ عبدالحمید کی گرفتاری کے بعد جناب ملک لبریشن فرنٹ کے چیف کمانڈر منتخب کئے گئے۔پھر ایک موقع پر اگر چہ انہوں نے عسکری تحریک کو سیاسی تحریک میں بدلنا چاہا لیکن ان کے اندر مسلح مزاحمت کو ختم نہیں کیا جاسکا۔فسطائی اور انسانیت کا قاتل مودی ہر حال میں محمد یاسین ملک کو تختہ دار تک پہنچانا چاہتا ہے مگر
ادھر آستم گرہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
کے مصداق جناب ملک بھی نہ بھیک مانگ رہا ہے اور نہ ہی منتیں کررہا ہے،بلکہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چٹان کی مانند بھارتی سامراج کو للکار رہے ہیں،جس تہاڑ جیل میں جناب ملک اور دوسرے ازادی پسند پابند سلاسل ہیں اسی تہاڑ جیل میں جناب مقبول بٹ11 فروری 1984 اور محمد افضل گورو 9 فروری 2013میں پھانسی کے پھندوں کو خوشی خوشی چوم کر بھارتیوں کو یہ بتاچکے ہیں کہ آزادی کے متوالے تختہ دار سے کب ڈرے تھے کہ وہ ڈرتے،ان دونوں کی میتیں تہاڑ جیل کے اندر ہی دفن ہیں۔اگر بھارت ان سپوتوں کو نہیں ڈرا سکا تو محمد یاسین ملک کو کیسے ڈرا پائے گا۔جو خود کوجناب مقبول بٹ کا سیاسی جانشین کہلوانا اپنے لیے فخر محسوس کرتے ہیں۔البتہ اہل کشمیر اور پوری دنیا میں مقیم کشمیری اور ان کے ہمدرد بھی یاسین ملک کے ساتھ کھڑے ہیں،مظاہرے اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے،آج بھی بھارت کی بدنام زمانہ ایجنسی این آئی اے کی عدالت کی جانب سے محمد یاسین ملک کو فرضی،من گھڑت اور بے بنیاد کیس میں سزا سنائے جانے کے خلاف پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی،جس کے نتیجے میں تمام کاروباری مراکز،بازار،دفاتر،تعلیمی ادارے،بینک اور عدالتیں بند جبکہ ٹرانسپورٹ معطل رہی۔
ہڑتال کی کال کل جماعتی حریت کانفرنس نے دی ،جس کی حمایت تجارتی و کاروباری تنظیموں،لبریشن فرنٹ اور سول سوسائٹی کے اراکین نے کی تھی۔پوری دنیا میں مقیم کشمیریوں اور ان کے ہمدردوں سے یاسین ملک کے جھوٹے مقدمے کے خلاف دنیا کے تمام بڑے اور اہم دارالحکومتوں میں احتجاج کرنے کی اپیل کی جاچکی تھی۔کل جماعتی حریت کانفرنس کا کہنا ہے کہ محمد یاسین ملک کو بھارتی کینگرو عدالت کی جانب سے سزا سنانا انصاف کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے،محمد یاسین ملک کا ٹرائل اور متعصب بھارتی عدالت کی طرف سے سزاسنانا سیاسی انتقام کی بدترین شکل ہے۔محمد یاسین ملک کو شرمناک فیصلے کے ذریعے سزا سنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی عدالتیں بی جے پی کی ہدایت پر کام کر رہی ہیں۔فسطائی مودی حکومت کی عدالتی دہشت گردی کا واحد مقصد محمد یاسین ملک اور دیگر حریت رہنماوں کی آزادی کی آواز کو دبانا ہے۔محمد یاسین ملک کے خلاف متعصب بھارتی عدالت کے فیصلے کا واحدمقصد آزادی پسند کشمیری عوام کو غاصبانہ بھارتی قبضے کے خلاف آواز اٹھانے سے روکنا ہے۔ بھارت جابرانہ حربوں اور ہتھکنڈوں سے کشمیری حریت قیادت کی آزادی کی خواہش کو ختم نہیں کرسکتا۔عالمی برادری اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کو بھارت کو محمد یاسین ملک کیس میں قیدیوں کے بنیادی حقوق سے متعلق جینوا کنونشن کی خلاف ورزی سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے،تاکہ ایک تو اہل کشمیر کے ایک نڈر اور بے باک رہنما کو زندگی سے محروم ہونے سے بچایا جاسکے ،دوسرا بھارت کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ اس کے ظالمانہ اور سفاکانہ ہتھکنڈوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
محمد یاسین ملک کی معصوم اور پھول جیسی کلی بیٹی رضیہ سلطانہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کو بچانا چاہتی ہیں جو نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں غیر قانونی طور پر نظر بند ہیں۔ رضیہ سلطانہ نے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے والدمحمد یاسین ملک کشمیری ہیں لہذا بھارت انہیں قتل کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے والد کے خلاف غیر قانونی بھارتی اقدامات کا نوٹس لیں۔کیونکہ این آئی اے کی ایک عدالت کل 25 مئی کو محمد یاسین ملک کے خلاف فیصلہ سنانے جارہی ہے۔جس کے نتیجے میں جان کی بازی بھی لگانی پڑے گی یا باقی ماندہ زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بسر کرنا ہوگی۔
Comments are closed.