دونوں ہیں آرام سے۔۔۔

تحریر: آفاق فاروقی

سماجی سائنس کے ماہرین سمجھتے ہیں آج گلوبل ورلڈ میں ریاست اور معاشرے کی گورنس خارجہ پالیسی پر کھڑی ہوتی ہے اور یہ  فارن پالیسی ہی ہے جس سے معشیت امن ، تحفظ، ترقی اور خوشحالی جڑے ہوتے ہیں ، اور خارجہ پالیسی ، ریاست کی بنیادی فلاسفی یا اساس اور زمینی حقائق سے نہ جڑی ہو تو اسکی ناکامی طے ہے۔

بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر جہاں بائیڈن انتظامیہ نے ان کا پرجوش استقبال کیا، وہیں امریکی سرمایہ کاروں سے انکی ٹھوس ملاقاتوں کو اہمیت دی جارہی ہے، مگر اسی پرجوش استقبال اور سرمایہ داروں سے ٹھوس ملاقات کے باوجود بھارت میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کی پامالی کے پس منظر میں مودی حکومت کی پالیسوں کے خلاف پورے امریکہ کا میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں، سول سوسائٹی اور تھنک ٹینکس بائیڈن انتظامیہ پر شدید تنقید  کرتے ہوئے کہتے ہیں غیر جمہوری اقدار کو فروغ دینے والی بھارتی حکومت سے امریکہ کے تعلقات کبھی دیرپا بنیادوں پر استوار نہیں ہوسکتے،اس کے لئے یا تو مودی سرکار کو اپنی انسان دشمن پالیساں بدلنا ہوں گی یا پھر امریکہ کو اپنی بنیادی فلاسفی سے دستبردار ہونا ہوگا، جسکی اجازت امریکی عوام اپنی کسی حکومت کو نہیں دے سکتے۔

بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی سے وال اسٹریٹ جنرل کی پاکستانی نژاد امریکن خاتون صحافی سبرینا صدیقی کو بھارتی وزیراعظم سے سوال کرنے کے جرم میں دھمکیاں بھارتی وزیراعظم کے فاشزم کا ہی شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے، سبرینا صدیقی نے مودی سے بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کے پس منظر میں سوال کرنے کی ہمت کی جوابا انڈین شہریوں اور صحافیوں کی جانب سے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیوں نے تو جیسے بھارت کی جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی کے ڈراموں کو دنیا کے سامنے فلاپ کر دیاہے، بتایا جارہا ہے سبرینا صدیقی اور ان کے خاندان کو ہر ہر طرح سے دھمکایا ڈرایا جارہا ہے اور یہ سب اس ملک میں ہورہا ہے جس کی اساس و بنیاد، جمہوریت انسانی و شہری حقوق کی بالادستی پر کھڑی ہے، جسے سمجھنے کے لئے امریکی آئین کی جدوجہد اور سول وار کی پوری تاریخ گواہ ہے، امریکہ کی بنیاد ہی دنیا میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے فروغ کے لئے رکھی گئی تھی، فادر آف دی نیشن جارج واشنگٹن نے انسان کے قدرتی حقوق کے پس منظر میں کہا تھا

“آزادی اظہار رائے آزاد حکومت کا بنیادی ستون ہے، اگر یہ ستون چھین لیا جائے تو آزاد معاشرے کا آئین ختم ہوجاتا ہے”۔۔۔۔۔ امریکی آئین کے بانی جیمز میڈیسن سمجھتے  تھے “افراد اور پراپرٹی کے حقوق وہ چیزیں ہیں جن کے تحفظ کیلئے ہی حکومتیں قائم کرنی پڑتی ہیں”۔۔۔۔۔۔ جبکہ ابراہم لنکن کہا کرتے تھے “جو لوگ دوسروں کی آزادی سے انکار کرتے ہیں وہ اپنے لیے اس کے مستحق نہیں ہوتے، اور ایک منصف خدا کے زیر سایہ اسے زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔”

بھارتی وزراعظم اور امریکی صدر کی ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ جس میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے وہ خطے میں موجود دھشت گروں اور انکی تنظیموں کے خلاف کاروائی کرے اور خطے میں مستقل امن کی راہ ہموار کرے، بظاہر بھارت کی بڑی کامیابی ہے مگر امریکی جیو اسٹریٹجک پالیسوں سے آشنا حلقے کہتے ہیں مشترکہ اعلامیہ دنیا میں جنم لیتی نئی سرد جنگ کے پس منظر میں دیکھا پڑھا اور سنا جائے، جو چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا شاخسانہ ہے، امریکہ  جو چین کو روس کے ارادوں کا حمایتی بننے سے روکنے کے لئیے جہاں ایک طرف اپنے وزیرخارجہ ٹونی بلنکن کو چین بھیج کر معاملات کو ہاتھ میں رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے تو ساتھ ہی دوسری طرف بھارت جو ایک طرف عالمی معشیت و طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے، اس کی خارجہ پالیسی ایسے اہم ترین دورے میں بھی پاکستان جیسے چھوٹے سے ملک کے گرد ہی گھومتی رہی۔۔۔۔۔ مطلب ۔۔ “وہ بھی ہیں آرام سے ،ہم بھی ہیں آرام سے۔۔۔۔۔”

مگر امریکی دانشور پہلی بار ڈیموکریٹک انتظامیہ پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں امریکہ نے بھارت جیسے ملکوں سے تعلقات کے فروغ میں ملکی نظریاتی اساس کا خیال نہ رکھا تو اس کی عالمی ساکھ کو ہی نہیں اپنی عوام میں بھی شدید نقصان پہنچے گا، یہ دانشور سمجھتے ہیں امریکہ جیسے ملک میں جہاں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے اور میڈیا بشمول لبرل ماڈرن سیکولر میڈیا جو ڈیموکریٹک پارٹی کا سپورٹر ہے بھارت میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی صورت حال پر پھٹ پڑا ہے جس کا فائدہ ریپبلکن اگلے انتخابات میں اٹھانے کی کوشش کریں، گو کہ سابق ریپبلکن صدر ڈونلڈٹرمپ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ دنیا میں نئے سرمایہ دارانہ نظام جس میں جمہوریت کو بندی بنا کر اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کی نئی تعریف کے ساتھ اقتدار پر مستقل قبضے کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے اور جمہوریت، انسانی حقوق اور اظہار رائے کی اس آزادی کی نئی تعریف کی حمایت کے لئے دنیا میں باقاعدہ گروپ کے طور پر کام کیا جارہا تھا جس میں، پیوٹن شی سے لے کر مودی ، اردگان عمران سب ہی شامل تھے۔

 وہ تحریک انصاف جو امریکہ میں بھارتیوں کے ساتھ مل کر جنرل عاصم منیر کو بدنام کرنے میں مصروف تھی اور چند کانگریس مینوں اور سینٹرز سے ریاست پاکستان کے خلاف خط لکھوا کر خوش ہورہی تھی اس کے لئے بھارتی وزیراعظم کے خلاف 70 سے زائد کانگریس اور سینٹرز کی جانب سے خط کا حشر ایک سبق بھی ہے اور عبرت بھی ۔۔۔۔۔۔ حکومتوں اور ریاستوں کے مفاد کے سامنے ، انسانی حقوق اظہار رائے اور آئین جمہوریت کی سربلندی کے نعرے بس نعرے ہیں، اور پھر امریکہ ہو یا تاریخ کی کوئی دوسری عالمی طاقت بظاہر اپنے فائدے اور اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئیے ہی کام کرتی رہیں ہیں، انسانوں کے درمیان کشیدگی طاقت کے جائز ناجائز مظاہر اور اس کی وحشت ہی نے تو مذاہب سے ریاستی نظام تخلیق و تشکیل دینے پر مجبور کیا اب یہ الگ بات ہے ابھی انسانی وحشت، لالچ کو کنٹرول کرنے کا ایسا کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوسکا ہے جو اس کائنات کو امن سلامتی ترقی خوشحالی عدل انصاف مساوات سے ہمکنار کرسکے۔

Comments are closed.