حکومت نے جاسوسی کرکے میرے اہلخانہ کی جائیدادوں کی معلومات لیں، جسٹس قاضی فائز

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان کے اہلخانہ کی جاسوسی کر کے جائیدادوں کی معلومات حاصل کیں، معون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے عدالت کو گمراہ کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس کی کارروائی رکوانے کے لئے آئینی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت ہوئی، جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے اہلخانہ کی جائیدادوں کی تفصیلات حصول سے متعلق حکومتی موقف پر اپنا جواب جمع کروایا، جس میں انہوں نے مختلف ویب سائٹس سے جائیدادوں کی تفصیلات ڈھونڈنے کے حکومتی موقف کی تردید کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے موقف اپنایا گیا ہے کہ معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اور ضیاء المصطفیٰ نے اپنے پہلے موقف کے ذریعے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی اس کے بعد معافی مانگنے کے بجائے 14 ماہ بعد نیا موقف اپنا لیا گیا۔

عدالت عظمیٰ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے جواب میں مزید کہا ہے کہ دونوں فریقین نے نیا یکم جون اور6 جون کو جمع کروائی دستاویزات میں اپنایا، جس کے مطابق میرے اہلخانہ کی جائیدادیں مختلف ویب سائٹس کےذریعے تلاش کی گئیں، حالانکہ ویب سائٹس یا سرچ انجن کے ذریعےجائیدادوں کی تلاش عام طرز کی نہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ سرچ انجن کے ذریعے جائیدادیں تلاش کرنے کیلئے ادائیگیوں سمیت مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، اگرحکومت نےجائیدادوں کوسرچ انجن سے تلاش کیا ہے تودستاویزی شواہد اور سرچ انجن کو ادائیگی کی تفصیلات فراہم کرے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ثابت کر چکا ہوں کہ درخواست گزار وحید ڈوگر کومیرے اہلخانہ کے درست نام تک معلوم نہیں، درست نام کے اندراج کے بغیرجائیداد کی تلاش نہیں کی جا سکتی،درحقیقت جاسوسی کے ذریعے میرے اہلخانہ کی جائیدادیں ڈھونڈیں گئیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے درخواست کو کیس کا حصہ بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران فروغ نسیم نے دلائل دیئے کہ آرٹیکل 209 میں اہلیہ کوزیرکفالت یا خود کفیل رکھنا بلا جواز ہے۔۔کسی کا اپنے یا اہلیہ کے نام جائیداد ظاہر نہ کرنا قابل سزا جرم ہے۔۔۔آرٹیکل 63 کے تحت جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والا رکن اسمبلی اپنی رکنیت سے محروم ہوجاتا ہے۔۔جج بھی سروس آف پاکستان میں آتا ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ تسلیم کرتے ہیں ایک جج پر سوال اٹھے تو پورے ادارے پر سوال اٹھتے ہیں۔ایک جج کو عمومی باتوں سےچیلنج نہیں کیاجاسکتا۔جج بھی قابل احتساب ہیں۔آپ کیس میں مسئلے کی حل طرف آئیں۔جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ جج قابل احتساب ہیں تو حکومت بھی قابل احتساب ہے۔فروغ نسیم نے کہا کہ جائیدادیں جج کی اہلیہ کی ہیں۔لگتا ہے کٹہرے میں حکومت کھڑی ہے۔

جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ کسی فورم پر یہ ثابت کریں کہ اہلیہ کوجائیداد خریدنے کیلئے جج نے پیسے دیئے۔۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ایف بی آر اہلیہ سے ذرائع پوچھ لے۔۔اگر ایف بی آر رازداری کی وجہ سے جج صاحب کو اہلیہ کا ریکارڈ نہیں دے گا تو جج انضباطی کارروائی کا سامنا کیسے کرے گا؟

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ایف بی آر پوچھے اور اہلیہ جواب دے دیں تو کیس ختم ہو جائے گا۔ تاہم وہ اس سوال کا جواب متعلقہ قوانین کودیکھ کردیں گے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ پھر اس بات پر اصرار کیوں کر رہے ہیں کہ جواب قاضی فائزعیسیٰ ہی دیں۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ الزام یہ ہے کہ لندن کی جائیدادیں کیسے خریدیں؟صدارتی ریفرنس میں تشویش جائیداد خریدنے کے ذرائع ہیں۔

حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ سروس آف پاکستان کے ملازم کے بچے رولز رائس گاڑی چلائیں۔ اگر 1969 کا قانون اتنا برا تھا تو اٹھارویں ترمیم میں پارلیمنٹ اسے ختم کر دیتی۔عدالت نے سماعت 16 جون تک ملتوی کردی۔

1 Comment
  1. safetoto says

    When I read an article on this topic, safetoto the first thought was profound and difficult, and I wondered if others could understand.. My site has a discussion board for articles and photos similar to this topic. Could you please visit me when you have time to discuss this topic?

Comments are closed.