کراچی میں پی آئی اے طیارے کو پیش آنے والے حادثہ کی تحقیقاتی رپورٹ نیوز ڈپلومیسی پر۔۔۔

پائلٹ اورمعاون پائلٹ کورونا پر محوگفتگو رہے، وارننگ پرتوجہ نہ دینے سے طیارے کو حادثہ پیش آیا، وفاقی وزیر غلام سرور

اسلام آباد: وفاقی وزیرہوا بازی غلام سرورخان نے کراچی طیارہ حادثہ کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کردی جس میں پائلٹ معاون پائلٹ اور ایئرکنٹرولر تینوں ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں تندرست تھے مگر وہ کورونا پر گفتگو کرتے رہے اور کنٹرولر کی وارننگ پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے حادثہ ہوا۔

قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کے طیارہ حادثہ کی ابتدائی رپورٹ نیوز ڈپلومیسی نے حاصل کر لی ہے، جس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔

طیارے حادثے میں 98 قیمتی جانیں گئیں جن میں 97 مسافر اور زمین پر موجود ایک بچی شامل تھی۔ یہ بدقسمت طیارہ 22 مئی 2020 بوقت 1 بجکر 5 منٹ پر لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہوا، طیارہ کراچی ائیر پورٹ کے قریب نواحی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔.

خوش قسمتی سے 2 افراد اس ہولناک حادثے میں محفوظ رہے، 96 لاشیں اب تک ورثا کے حوالے کی جا چکی ہیں۔ابھی تک 10 لاکھ فی کس تدفین کے لیے 90 افراد کے ورثا کو ادا کر دیے گئے ہیں، زمین پر شہید ہونے والی بچی کے لواحقین کو بھی ادا کر دیے گئے ہیں جبکہ زخمی ہونے والے افراد کو پانچ لاکھ فی کس ادا کر دیے گئے ہیں۔

طیارہ حادثے کی وجہ سے 21 گھروں کو نقصان پہنچا اس سلسلے میں پی آئی اے نے 45.479 ملیںن کا تخمینہ لگایا ہے . ان مکانات کے رہائشیوں کو پی آئی اے اور گورنر سندھ کی جانب سے رہائش فراہم کی گئی ہے، اور جب تک ان کے مکانات کی تعمیر و مرمت مکمل نہیں ہوتی وہ اس رہائش کو استعمال کر سکتے ہیں۔وفاقی حکومت نے طیارہ حادثے کے دن ہی 4 رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

حادثے کے فوری بعد 10 رکنی فرانسیسی ٹیم تحقیقات میں معاونت کے لیے پاکستان آئی. اس ٹیم میں چھ افراد ائیر بس فرانس سے تھے جبکہ تین افراد کا تعلق فرانس کے تحقیقاتی ادارے سے تھا. اس کے علاوہ باقی ایک شخص انجن بنانے والی کمپنی سے تھا۔

تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ کی نگرانی میں ڈیٹا ریکارڈر اور وائس ریکارڈر فرانس لے جایا گیا جہاں غیر ملکی ادارے سے تعلق رکھنے والے چودہ ماہرین نے اسے ڈی کوڈ کیا، ان چودہ ماہرین میں سے سات کا تعلق فرانس کے تحقیقاتی ادارے بی ای اے اور پانچ کا تعلق ائیر بس فرانس سے تھا باقی دو میں سے ایک انجن بنانے والی کمپنی اور ایک یورپی یونین کے سیفٹی ادارے سے تھا۔

ہماری موجودہ تحقیقاتی ٹیم 12 افراد پر مشتمل ہے جن میں چار ممبران اے اے آئی بی کے ہیں جبکہ باقی پاکستان سے ایک ڈاکٹر,  ایک انجینئیر, ایک ماہر نفسیات اور دو پائیلٹس ہیں. باقی تین ممبران غیر ملکی ہیں جن میں دو افراد فرانس کی تحقیقاتی ایجنسی کے ہیں جبکہ ایک ممبر امریکہ کے تحقیقاتی ادارے این ٹی ایس بی سے تعلق رکھتا ہے۔

ہماری تحقیقاتی ٹیم نے ایک ماہ کی قلیل مدت میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے جو کہ بین الاقوامی قواعد کے مطابق ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسی رپورٹ ایک ماہ کی قلیل مدت میں عوام کے سامنے لائی گئی ہے۔

اس ابتدائی رپورٹ میں کچھ حقائق منظر عام پر آئے ہیں جنہیں ہم عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اس ابتدائی رپورٹ کے مطابق بد قسمت طیارہ فضائی پرواز کے لیے مبینہ طور پر فٹ تھا. اس بد قسمت طیارے نے سات سے بائیس مئی کے دوران چھ مرتبہ کامیاب پروازیں مکمل کی تھیں۔

[pdf-embedder url=”https://urdu.newsdiplomacy.com/wp-content/uploads/2020/06/AAIB-431.pdf”]

دونوں پائیلٹس اور معاون پائلٹ تجربہ کار اور طبی طور پر پرواز اڑانے کے لیے فٹ تھے ابتدائی تحقیقات کے مطابق پائلٹ نے فائنل اپروچ پر جہاز میں کسی تکنیکی خرابی کی نشاندہی نہیں کی۔ رن وے سے 10 میل کے فاصلے پر جہاز کو تقریبا 2500 فٹ کی بلندی پر ہونا چاہیے تھا جبکہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق جہاز 7220 فٹ کی بلندی پر تھا۔

کنٹرولر نے تین دفعہ پائیلٹ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کی اس کہ اونچائی ابھی بھی زیادہ ہے اور پائیلٹ سے کہا کہ لینڈنگ نہ کریں اور ایک چکر لگا کر آئیں لیکن اس کے باوجود پائلٹ نے کنٹرولر کی ہدایات کو نظر انداز کیا۔  ابتدائی تحقیقات کے مطابق رن وے سے 10 نائیکل مائلز کے فاصلے پر جہاز کے لینڈنگ گئیر کھولے گے جبکہ رن وے سے تقریبا پانچ نائیکل مائلز کے فاصلے پر جہاز کے لینڈنگ گئیر بند کر دیے گئے

جہاز جب لینڈنگ کے لیے آیا تو اسے رن وے پر 1500 سے 3000 فٹ پر ٹچ ڈاون کرنا چاہیے تھا لیکن جہاز نے 4500 فٹ پر لینڈنگ گئیر کے بغیر انجن پر ٹچ ڈاون کیا اور جہاز 3000 سے 4000 فٹ تک رن وے پر رگڑے کھاتا رہا۔

اسی دوران پائلٹ نے دوبارہ انجن کو پاور دے کر ٹیک آف کر لیا، جہاز نے جب دوبارہ ٹیک آف کیا تو دونوں انجن ڈیمیج ہو چکے تھے، جہاز جب دوبارہ لینڈنگ کے لیے اپروچ بنا رہا تھا تو اس دوران سول آبادی پر گر گیا۔

ابتدائی تحقیقات کے مطابق پائلٹ اور کنٹرولر دونوں نے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا، ایک طرف پائلٹ نے کنٹرولر کی ہدایات کو نظر انداز کیا. دوسری طرف کنٹرولر نے بھی پائلٹ کو جہاز کے انجن کے رگڑ کھانے کے بعد نقصان کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔

ماضی میں 4 بڑے حادثات جن میں ایئربلیو، بھوجا ایئر، پی آئی اے چترال اور پی آئی اے گلگت حادثہ شامل ہیں۔ ان میں ائیر بلیو اور بوجھا حادثات کی تحقیقاتی رپورٹس مکمل ہو چکی ہیں جبکہ چترال حادثے کی رپورٹ اپنے آخری مراحل اور گلگت حادثے کی رپورٹ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے۔

ائیر بلیو اور بوجھا ائیر حادثات کی حتمی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دونوں حادثات پائیلٹس کی غلطی کی وجہ سے پیش آئے جبکہ چترال والا حادثہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر پیش آیا، اس سلسلے میں حتمی رپورٹ اگست 2020 میں تیار کر لی جائے گئی۔

پی آئی اے کے گلگت حادثے کی ابتدائی تحقیقات بھی پائلٹ کی غلطی کی طرف اشارہ کرتی ہے. اس حادثے کی رپورٹ بھی اس سال کے آخر تک تیار کر لی جائے گئی۔

ان تحقیقات کا مقصد صرف کسی فرد پر ذمہ داری عائد کرنا نہیں ہے بلکہ ایسے اقدامات کا تعین کرنا ضروری ہے جس سے یہ واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں، اسی سلسلے میں کچھ اطلاعات کی بنیاد پر ہماری حکومت نے 2019 میں ایک اعلی سطحی انکوائری تشکیل دی۔

Activity - Insert animated GIF to HTML

Comments are closed.