پاکستان نے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں سے متعلق امریکی الزام مسترد کردیئے

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں سے متعلق الزامات مسترد کر دیئے ہیں اور کہا ہے کہ پاکستان کسی بھی گروہ یا ادارے کو کسی بھی ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے نہیں دے گا۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے دہشت گردی سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے اسے مایوس کن قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں پاکستان کے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کو متنازعہ بنایا گیا۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیا کہ القاعدہ کو خطے میں ناکامی کا سامنا ہوا لیکن اس حوالے سے پاکستان کی کاوشوں کو نظر انداز کیا گیا،پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہاکستان نے دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں کیں۔

عائشہ فاروقی نے کہا کہ پاکستان ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح واقف ہے، ہم دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے ہر الزام کو مسترد کرتے ہیں، پاکستان کسی بھی گروہ یا ادارے کو کسی بھی ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے نہیں دے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اورداعش جیسے غیر ملکی سرپرستی والے گروپوں سے دہشت گردی کے خطرے کا سامنا کیا، امریکی رپورٹ اس حوالے سے خاموش ہے کہ یہ بیرونی سرپرستی والے دہشت گرد گروپ کہاں سے آپریٹ کیے جا رہے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے حالیہ مہینوں میں متعدد کالعدم گروپس کی قیادت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جسے رپورٹ میں کہیں تسلیم نہیں کیا گیا، پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایکشن پلان کے تحت پر عمل درآمد جاری رکھا ہوا ہے جس کو رپورٹ میں تسلیم کیا گیا۔

عائشہ فاروقی نے کہا کہ امریکی رپورٹ افغان عمل امن کے حوالے سے پاکستان کی خدمات کا مکمل طور پر احاطہ کرنے میں ناکام ہے، افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار نے خطے میں امن کے لیے تاریخی موقع فراہم کیا، 29 فروری  کے امن معاہدے کے اختتام پر امریکا طالبان مذاکرات کے لیے پاکستان کی مثبت شراکت اور کردار کو سراہا گیا، امید ہے کہ مستقبل میں امریکہ کی رپورٹس دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار اور کاوشوں کو تسلیم کریں گی۔

Comments are closed.