اسلام آباد: پاکستان میں سزائے موت کے منتظر بھارتی خفیہ ایجنسی کے جاسوس کلبھوشن یادیوں نے اپنی سزا کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کرنے سے انکار کردیا جب کہ پہلے دی گئی رحم کی اپیل کے جواب کا انتظار کرنے کا انتخاب کیا ہے۔
اسلام آباد میں دفترخارجہ میں ڈائریکٹر جنرل جنوبی ایشیا و سارک زاہد حفیظ چوہدری کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان نے بتایا کہ عالمی عدالت انصاف میں جو کیس پاکستان نے جیتا تھا اس کے فیصلے کے اہم نکات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ویانا کنونشن کی دفعہ 36 کے تحت کلبھوشن یادیو کو ان کے حقوق کے بارے میں بتایا جائے۔
احمد عرفان نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ فیصلے میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ بھارتی افسران کو کلبھوشن یادیو سے بات چیت کرنے کی اجازت اور قونصلر رسائی دی جائے تا کہ وہ ان سے ملاقات کریں اور ان کے لیے قانونی نمائندگی کا بندوبست کریں۔عالمی عدالت نے کیس پر مؤثر نظرثانی کے لیے تمام تر اقدامات اٹھانے جن میں ضرورت پڑنے پر قانون سازی کا نفاذ بھی شامل ہے کی ہدایت اور مؤثر نظرِ ثانی تک پھانسی کی سزا کو روک دینے کا کہا تھا
حکومت پاکستان کے اہم اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف فیصلے کے فوراً بعد بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو ویانا کنویشن کی دفعہ 36 کے تحت قونصلر رسائی کے ان کے حق کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ 2 اگست 2019 کو پاکستان نے بھارتی ہائی کمیشن کے ایک سفارتی اہلکار کو اسلام آباد دعوت دی گئی، جسے بھارت نے ایک ماہ کی تاخیر کے بعد 2 ستمبر کو قبول کیا جس کے بعد ہائی کمیشن کے ایک افسر نے دہشت گرد کلبھوشن یادیوں سے ملاقات کی۔
احمد عرفان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے را کے ایجنٹ کمانڈر یادیو کی سزائے موت کو سزا پر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور تک کے لیے روک دیا۔اس کے علاوہ نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کے لیے پاکستان اپنے موجودہ قوانین کا جائزہ لیا تا کہ ویانا کنوینشن کے آرٹیکل 36 کے تحت مناسب طریقے سے نظرِ ثانی اور غور کیا جاسکے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پاکستان کا قانون نظرِثانی کا حق فراہم کرتا ہے لیکن عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈینسس 2020‘ نافذ کیا۔ جس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائیکورٹ میں نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔
احمد عرفان کا کہنا تھا کہ آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت کلبھوشن یادیو بذات خود، قانونی اختیار رکھنے والے نمائندے یا بھارتی ہائی کمیشن کے قونصلر اہلکار کے ذریعے نظرِ ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔ 17 جون 2020 کو بھارتی جاسوس کو ان کی سزا پر نظرِ ثانی اور دوبار غور کی اپیل دائر کرنے کی پیشکش کی گئی اور پاکستان نے انڈین خفیہ ایجنسی (را) کے ایجنٹ کے لیے قانونی نمائندگی کا انتظام کرنے کی بھی پیشکش کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کلبھوشن یادیو نے اپنے قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے سزا پر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کے لیے اپیل دائر کرنے سے انکار کردیا اور اس کے بجائے زیر التوا رحم کی اپیل پر جواب کے انتظار کا انتخاب کیا۔ پاکستان بارہا بھارتی ہائی کمیشن کو کلبھوشن یادیو کی سزا پر نظرثانی اور اس پر غور و فکر کا عمل شروع کرنے کی دعوت دے چکا ہے۔
احمد عرفان نے کہا کہ ایک ذمہ دار خود مختار ریاست ہونے کی حیثیت سے پاکستان اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور کلبھوشن یادیو سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد کے عزم پر قائم ہے۔ اس معاملے پر تاخیری حربوں اور سیاست کے بجائے بھارت کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے اور پاکستان کی عدالتوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارت کو دوسری مرتبہ کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی، بھارتی جاسوس کی اہلیہ اور والد سے ملاقات کی پیشکش کی ہے۔
Comments are closed.