ہائیکورٹس کےجج ٹرائل کورٹ کےفیصلوں پرکھلی عدالتوں میں نکتہ چینی نہ کریں،سپریم کورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہائی کورٹس کے جج صاحبان کو ماتحت عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف کھلی عدالتوں میں نکتہ چینی اور اعتراضات سے روک دیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے یہ اہم حکم ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن پشاور جج نصرت یاسمین کی اپیل پر تحریری فیصلے میں سنایا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے جج نصرت یاسمین سے متعلق اعتراضات حذف کر دیے اور حکم دیا کہ پشاور ہائی کورٹ کے اعتراضات کو سائلہ جج کے سروس ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ہائیکورٹس کو اگر ماتحت عدلیہ کے کسی فیصلہ پر اعتراض ہو تو انتظامی کمیٹی کو انضباطی کاروائی کے لیے لکھے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کیس کی اپیل کے دوران جج کو عدالت میں طلب کیا جا سکتا نا ہی کھلی عدالت میں ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ اگر ہائیکورٹ کو لگے کے ماتحت جج ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے تو محکمانہ کاروائی کے لیے لکھا جا سکتا ہے، فیصلے کی کاپی تمام ہائیکورٹس کو بھجوانے کا حکم دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ جج نصرت یاسمین کے خلاف پشاور ہائی کورٹ نے 2014 میں ایک کیس کی اپیل کے دوران سخت ریمارکس دیے تھے۔ جس پر نصرت یاسین نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی کہ ہائیکورٹ کے ریمارکس کو ان کے سروس ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے۔

درخواست گزار جج کی اپیل پر سپریم کورٹ میں جسٹس منظور ملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی تھی جبکہ فیصلہ ک جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔

Comments are closed.