وزیراعظم کا استعفیٰ ناممکن بات ہے، اس مطالبے کی آڑمیں مولاناچڑھائی کرنا چاہتے ہیں، پرویزخٹک

اسلام آباد: حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا ہے وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ناممکن سی بات ہے، اس کا مطلب ہے اس مطالبے کی آڑ میں مولانا فضل الرحمان چڑھائی کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام آباد میں حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اجلاس کے بعد وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر تعلیم شفقت محمود نے مشترکہ پریس کانفرنس کی، جس میں پرویزخٹک نے کہا کہ جب تحریک انصاف نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تھا تو ہمارے پاس ایک موقف تھا ایسے ہی مارچ نہیں کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت صرف زبانی بات نہیں کررہے تھے بلکہ پناما کے معاملے پر تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن کسی نے ہماری بات نہیں سنی، تاہم جب پاناما کا معاملہ ہوا تو بھی ہم چھپے نہیں ہم نے حکومتی لوگوں سے بات کی۔

حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ تمام اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ آکر بات کریں کیونکہ اگر آپ کے پاس کوئی مسئلہ، کوئی مطالبہ ہے تو وہ بات چیت سے حل اور تسلیم کیا جا سکتا ہے، ملک میں جمہوریت ہے جب میز پر بیٹھیں گے تو بات ہوگی تاہم اگر اپنے مطالبات سامنے نہیں لائیں گے تو پھر افراتفری ہوگی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افراتفری سے ملک کو نقصان پہنچے گا تو پھر ذمہ داری اُن پر ہے، پھر ہم سے کوئی گلا نہ کرے کیونکہ اس کے بعد حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں تا کہ کوئی ڈیڈلاک نہ آئے اور کسی کی جان و مال کو نقصان نہ پہنچے، اگر یہ لوگ نہیں رکیں گے تو پھر حکومت اپنی رٹ قائم کرے گی۔ پھر سب کو برداشت کرنا پڑے گا۔

اگر اپنے مطالبات سامنے نہیں لائیں گے تو پھر افراتفری ہوگی۔ جس سے ملک کو نقصان پہنچے گا تو پھر ذمہ داری اُن پر ہے، پھر ہم سے کوئی گلا نہ کرے کیونکہ اس کے بعد حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں تا کہ کوئی ڈیڈلاک نہ آئے اور کسی کی جان و مال کو نقصان نہ پہنچے۔

وزیردفاع پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بات ہی نہیں کرتا تو اس کا مطلب ایجنڈا کچھ اور ہے۔ اس وقت یہ دیکھا جائے کہ ملک کے حالات کیسے ہیں، کشمیر کا معاملہ سب کے سامنے ہے لیکن اس وجہ سے کشمیر کا معاملہ پیچھے چلا گیا ہے۔لگتا ہے کشمیر کے معاملے کو دبانے کے لیے یہ ایجنڈا بنایا گیا ہے۔

حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جو معاملہ پاکستان کے حق میں ہوگا اس کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ حکومت نے گھبرا کر کمیٹی بنائی تو وہ غلط فہمی میں نہ رہے یہ جمہوریت کی روایت ہے کہ میز پر ہی بات ہوتی ہے اور ہم جمہوری لوگ ہیں۔پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے امید ہے کہ جو بھی معاملہ ہوگا بیٹھ کر بات کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت صرف عمران خان نہیں بلکہ ایک ریاست ہے اور اگر کوئی اس نظام کو توڑنا چاہتا ہے تو پھر جواب ملے گا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر بھارتی ٹی وی چینلز دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے ایجنڈے پر کام ہورہا ہے اور پاکستان میں افراتفری پھیل گئی ہے۔

مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کو پاکستان کے لیے سوچنا چاہیے، اگر ان کا ایجنڈا پاکستان اور پاکستان سے محبت ہے تو پھر بیٹھ کر بات کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اگر ایجنڈا افراتفری پھیلانا، ملک کو پیچھے لے جانا اور مودی کو خوش کرنا ہے تو ایسی ملک دشمنی کرنے والوں سے ہرگز بات چیت نہیں ہوگی۔

 مولانا فضل الرحمان کو پاکستان کے لیے سوچنا چاہیے، اگر ان کا ایجنڈا پاکستان اور پاکستان سے محبت ہے تو پھر بیٹھ کر بات کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اگر ایجنڈا افراتفری پھیلانا، ملک کو پیچھے لے جانا اور مودی کو خوش کرنا ہے تو ایسی ملک دشمنی کرنے والوں سے ہرگز بات چیت نہیں ہوگی۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس میں چیئرمین سینیٹ کو بھی شامل کیا گیا کیوں کہ ان کی ایک جماعت ہے جبکہ اگر اس میں وزیراعلیٰ بلوچستان آتے ہیں تو انہیں بھی شامل کیا جائے گا جبکہ جہاں تک چوہدری پرویز الٰہی کی بات ہے تو ان کی بھی اس کمیٹی میں شامل ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفیٰ ناممکن سی بات ہے، یہ پھر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان میں ایسی چیز برداشت نہیں ہوگی اور اس پر کارروائی کریں گے۔

وزیردفاع پرویز خٹک نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر ہم ناکام ہوگئے تو پھر جو ہوگا اس کی ذمہ داری تمام اپوزیشن جماعتوں پر ہوگی، ہم نہ کسی سے این آر او چاہ رہے، جمہوری ملک میں مذاکرات ہوتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی سے متعلق حکومتی وزراء نے کہا کہ پابندی لگتی رہتی ہیں اور یہ چلتا رہتا ہے، ہمارا آئین و قانون بھی کہتا ہے کہ مسلح گروپ کی پاکستان میں اجازت نہیں اور اس طرح کی چیزیں نہیں ہونی چاہیے۔

وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان سے گزارش کروں گا کہ سیاسی گفتگو تو چلتی رہتی ہے لیکن میں نے ان کی کچھ ویڈیوز دیکھی ہیں، جس میں وہ اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں، لہٰذا اس قسم کی سطح پر نہ پہنچیں، جہاں وہ ریاست کے ستونوں پر حملہ کریں کیونکہ پھر اس قسم کی چیز برداشت نہیں کی جائے گی۔

Comments are closed.