العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کی سزا 8ہفتوں کے لئے معطل،مشروط ضمانت منظور

اسلام آباد: العزیزیہ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتوں کے لئے مشروط ضمانت منظور کرلی ہے۔ عدالت نے قائد ن لیگ کو آٹھ ہفتوں میں علاج نہ ہونے کی صورت میں پنجاب حکومت سے رابطے کی ہدایت کی ہے، اس عرصے میں رابطہ نہ کرنے پر نواز شریف کو جیل جانا ہوگا۔

العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے بیان میں کہا کہ وہ خود بھی ایک وکیل ہیں، جیل کے قیدیوں کے مسائل موجود ہیں، میں نے ایک سال میں 8 جیلوں کے دورے کیے تاہم جیل میں قیدیوں کے حوالے سے اقدامات بہتربنانے کی ضرورت ہے جب کہ پیرول ایکٹ کے حوالے سے قانون سازی ہورہی ہے۔

سروسزاسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر سلیم چیمہ نے نواز شریف کی نئی رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز میڈیکل بورڈ کا ساتواں اجلاس تھا، سابق وزیراعظم کی طبی حالت اب بھی تشویش ناک ہے۔نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے بتایا کہ نوازشریف کی عمر 70 سال ہے اور دل کی بیماری بھی ہے، نوازشریف کے ساتھ 20 سال سے ہوں اورآج تک اتنی تشویش ناک حالت میں نہیں دیکھا، پلیٹ لیٹس کی کم تعداد کی تاحال وجوہات کا علم نہیں ہو سکا، مسلسل علاج کے باوجود نواز شریف کے پلیٹلیٹس نہیں بڑھے، کسی بھی وقت خون بہنے کا خطرہ موجود ہے۔

جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ کیا پلیٹ لٹس بڑھانے سے دل کی بیماری شروع ہوجاتی ہے، اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو بہت سی بیماریاں ہیں، ایک کے علاج سے دوسری متاثر ہوتی ہے، جب دل کی بیماری ہوتو اس کا اثر پلیٹ لیٹس پر بھی پڑتا ہے لہٰذا نواز شریف کو اجازت دی جائے کہ وہ جس ڈاکٹر سے چاہیں علاج کرا سکیں۔

جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس میں کہا کہ کس نے فیصلہ کرنا ہے کہ جب نواز شریف ٹھیک ہوگئے تو سزا پوری کریں گے، اگر وہ کبھی بھی دوبارہ سزا کاٹنے کے قابل نہیں ہوتے تو کیا ہو گا، کیا سزا کو پھر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا، اگر ضمانت ہوجائے اور چند ماہ میں نواز شریف صحت مند ہو جائیں تو طریقہ کیا ہوگا۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل کے آغاز میں نوازشریف کو بیرون ملک علاج کی اجازت دینے کی مخالفت کی تاہم بعد میں نوازشریف کو مشروط اور محدود ضمانت دینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی میڈیکل حالت تشویشناک ہے، عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹائم فریم کے تحت سزامعطل کر دے۔

نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو مخصوص مدت کے لیے ضمانت دی جاسکتی ہے، علاج کے لیے مخصوص مدت کے لیے ضمانت کا طریقہ کار سپریم کورٹ کی جانب سے طے کردہ ہے، جب کہ نواز شریف کیس میں میرٹ پر بات نہیں کرتے، دوسری صورت یہ ہے کہ درخواست ضمانت کو التواء میں رکھا جائے اور اس دوران نواز شریف کی فریش میڈیکل رپورٹ منگوالی جائے، ہم صرف انسانی بنیادوں پر یہ بیان دے رہے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارا المیہ ہے کہ ایگزیکٹو اپنے اختیارات استعمال نہیں کرتے بلکہ دوسروں کے کندھے استعمال کیے جاتے ہیں۔ نواز شریف کی ضمانت کے 3 آپشنز ہمارے سامنے ہیں، پہلا آپشن یہ ہے کہ نوازشریف کو ضمانت دے دی جائے، دوسرا آپشن ہے کہ نیب کی تجویز کے مطابق مشروط ضمانت دے دی جائے جب کہ تیسرا آپشن یہ ہے کہ حکومت کواختیار دے دیا جائے۔ جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ حکومت ضمانت کا فیصلہ کرے تو شاید وہ ڈیل نہ کہلائے، ڈیل کی باتوں نے رائے عامہ کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نوازشریف کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر بعد سنایا گیا، عدالت نے فیصلے میں سابق وزیراعظم کی طبی بنیادوں پر 8 ہفتے کے لیے مشروط ضمانت منظور کر لی اور انہیں 20، 20 لاکھ کے 2 مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کی۔ عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا کہ نوازشریف 8 ہفتے میں علاج کروالیں، اگر اس دوران علاج نہیں ہوتا تو وہ پنجاب حکومت کو آگاہ کریں گے، اگر آٹھ ہفتوں میں علاج بھی نہیں ہوتا اور وہ صوبائی حکومت سے رابطہ بھی نہیں کرتے تو اس صورت میں انہیں جیل جانا ہوگا۔

Comments are closed.