مولانا فضل الرحمان کی اداروں کو حکومت کی پشت پناہی چھوڑنے، وزیراعظم کو استعفے کیلئے2 دن کی مہلت

اسلام آباد: جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت مخالف احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کردیا جب کہ وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے اور ریاستی اداروں کو حکومت کی پشت پناہی ختم کرنے کیلئے دو دن کی مہلت دی ہے۔

جے یو آئی (ف) کا کراچی سے شروع ہونے والا آزادی مارچ اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن میں پہنچ کر جلسے  کے بعد دھرنے میں تبدیل ہو گیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں جے یو آئی کا آزادی مارچ اور احتجاجی جلسہ میٹرو گراؤنڈ میں ہوا۔ جس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے جلسے میں شرکت کی۔

’’اگر ہم محسوس کریں کہ ناجائز حکومت کی پشت پر ادارے ہیں اور اس کا تحفظ کررہے ہیں، تو پھر 2 دن کی مہلت ہے، پھر ہمیں نہ روکا جائے کہ اداروں کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں، وزیراعظم عمران خان کے پاس مستعفی ہونے کےلیے 2 دن کی مہلت ہے، وگرنہ عوام کا سمندر طاقت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کے گھر جاکر انہیں گرفتار کرلے‘‘۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وہ اداروں سے تصادم نہیں بلکہ ان کا استحکام چاہتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اداروں کو غیرجانبدار بھی دیکھنا چاہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر ہم محسوس کریں کہ ناجائز حکومت کی پشت پر ادارے ہیں اور اس کا تحفظ کررہے ہیں، تو پھر 2 دن کی مہلت ہے، پھر ہمیں نہ روکا جائے کہ اداروں کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں، وزیراعظم عمران خان کے پاس مستعفی ہونے کےلیے 2 دن کی مہلت ہے، وگرنہ عوام کا سمندر طاقت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کے گھر جاکر انہیں گرفتار کرلے‘‘۔

جمعیت علمائے اسلالم (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہ کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ پوری قوم کا عوامی اجتماع ہے، تمام سیاسی جماعتوں کا یکجہتی کا فیصلہ دراصل قومی مطالبہ ہے کہ 25 جولائی کے الیکشن فراڈ اور دھاندلی زدہ تھے، حکومت کو بہت وقت دے دیا، مزید مہلت دینے کے روادار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم مزید صبر و تحمل کا مظاہرہ نہیں کرسکتے، اب ایک ہی فیصلہ کرنا ہے اس حکومت کو جانا ہے، قوم ان سے آزادی چاہتی ہے‘‘۔

مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے 50 لاکھ گھر بنانے کے بجائے 50 لاکھ گھر گرا دیے گئے، ایک کروڑ نوکریاں دینے کے بجائے 25 لاکھ لوگوں سے روزگار چھین لیے، عوام کو ان نااہل حکمرانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، حکومت کی نااہلی کے نتیجے میں ملکی معیشت تباہ ہوگئی، معیشت ختم ہوجائے تو ملک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا، پاکستان کے گورباچوف کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرکے مستعفی ہوجانا چاہیے۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ کہا کہ عوام کا فیصلہ آچکا ہے اور حکومت کا جانا طے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میری بات نواز شریف، آصف زرداری نے بھی سن لی اور جنہیں ہم سنانا چاہ رہے ہیں انہوں نے بھی سن لی، تحمل کے ساتھ دھرنے میں موجود رہیں، اپوزیشن جماعتیں باہمی رابطے میں ہیں، جو بھی فیصلہ ہوگا اس سے شرکاء کو آگاہ کیا جائےگا‘‘۔

مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت کہتی ہے کہ بھارت سےکشیدگی ہے،دوسری طرف دوستی کاہاتھ بڑھاتی ہے، کرتارپور راہداری کھولنے کیلئے بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں چڑھائی جا رہی ہیں، کشمیر کو انہوں نے مودی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکمران کہتے تھے باہر سے لوگ نوکری کےلیےآئیں گے، باہر سے کوئی نہیں آیا صرف آئی ایم ایف کے 2 بندےضرور پاکستان آئےہیں، پرانی کریشن تودورکی بات نئی کرپشن میں تین فیصد اضافہ ہوگیا ہے، دوسروں کو آئینہ دکھانےوالےوزیراعظم اپنی شکل بھی آئینے میں دیکھ لو، فارن فنڈنگ کیس میں ساری پی ٹی آئی اور سارا ٹبر ہی چورہے۔

’’میری بات نواز شریف، آصف زرداری نے بھی سن لی اور جنہیں ہم سنانا چاہ رہے ہیں انہوں نے بھی سن لی، تحمل کے ساتھ دھرنے میں موجود رہیں، اپوزیشن جماعتیں باہمی رابطے میں ہیں، جو بھی فیصلہ ہوگا اس سے شرکاء کو آگاہ کیا جائےگا‘‘۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے سانحہ تیزگام ایکسپریس کے متاثرین کے درجات کی بلند کےلیے دعا کرتے ہوئے واقعے کی دہشت گردی کے پہلو سے بھی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا۔

آزادی مارچ کے شرکاء نے مولانا عبد الغفور حیدری کی امامت میں جلسہ گاہ میں نماز جمعہ ادا کی۔ کشمیر ہائی وے پر سجے پنڈال میں کارکنوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور پارٹی ترانوں سے ان کے حوصلوں کو گرمایا گیا۔ کارکنوں کے لیے واش رومز،وضواور پینے کے لیے پانی کی وافر مقدار موجود ہے۔

جلسہ گاہ سے ملحقہ سڑکیں کنٹیرز لگا کر بند کر دی گئی ہیں۔جلسہ گاہ کے قریب موبائل جیمرز کی وجہ سے جی نائن، ایچ نائن و دیگر ملحقہ علاقوں میں موبائل فون صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

Comments are closed.