لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم دے دیا۔ سابق وزیراعظم کو بیرون ملک سے علاج کیلئے 4 ہفتے کا وقت دیا گیا اس عرصے میں ان کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو دی گئی مدت میں توسیع ہوسکتی ہے اور حکومتی نمائندہ سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کرسکے گا۔
جسٹس علی باقرنجفی اورجسٹس سرداراحمد نعیم پر مشتمل لاہورہائی کورٹ کا 2 رکنی بنچ سابق وزیراعظم نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہباز شریف کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران صدرمسلم لیگ (ن) شہباز شریف کے علاوہ پارٹی کے کئی رہنما بھی موجود تھے۔
سماعت کے آغاز پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط لگائی جاسکتی ہیں؟ کیا لگائی گئی شرائط علیحدہ کی جا سکتی ہیں؟ کیا میمورنڈم انسانی بنیادوں پرجاری کیا گیا؟ ضمانت کے بعد شرائط لاگو ہوں تو کیا عدالتی فیصلے کو تقویت ملے گی؟ کیا درخواست گزار ادائیگی کے لیے کوئی اور طریقہ ڈھونڈنے کو تیار ہے؟ حکومت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنا چاہتی ہے یا نہیں؟ کیا فریقین نواز شریف کی واپسی سے متعلق یا کوئی رعایت کی بات کر سکتے ہیں؟ کیا فریقین اپنے انڈیمنٹی بانڈز میں کمی کر سکتے ہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف علاج کیلئے باہرجانا چاہتے ہیں تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں لیکن نواز شریف کو باہر جانے سے پہلے عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا، ان کے پاس یہ آپشن ہے کہ اینڈیمنٹی یا شورٹی بانڈ کی رقم عدالت کے اکاونٹ پاس جمع کرادیں اگر یہ تمام چیزیں پوری کردیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، اس موقع پر انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے انڈیمنٹی بانڈ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروانے کی پیشکش کردی۔
ہائی کورٹ نے شہبازشریف سے استفسارکیا کہ کیا نوازشریف واپس آئیں گے، اور آپ کا انہیں ملک واپس لانے میں کیا کردار ہوگا جس پرشہبازشریف نے کہا کہ میں ان کے ساتھ بیرون ملک جارہا ہوں ان شاء اللہ وہ علاج کے بعد واپس آئیں گے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ قانون اپنی روح کے مطابق کام کرتا ہے، جو حلف یہ دینا چاہتے ہیں ان سے لکھ کرپوچھ لیتے ہیں، ہم درخواست گزارسے لکھ کرحلف لے لیتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے عدالت نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انڈرٹیکنگ عدالت کو جمع کرائی جائے گی۔ عدالت نے وفاق سے استفسار کیا کہ اگر آپ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کو جانے کی اجازت دے رہے ہیں تو پھرشرائط لگانے کی کیا ضرورت ہے، عدالت چاہ رہی ہے کہ یہ معاملہ حل ہو۔
عدالت نے کہا کہ ہم نواز شریف اور شہباز شریف سے لکھ کر حلف نامہ لے لیتے ہیں وفاق اس انڈر ٹیکنگ کو دیکھ لے، یہ انڈر ٹیکنگ عدالت میں دی جائے گی اگر حلف نامے پر پورا نہیں اترا جاتا تو توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔نواز شریف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جو شرائط بھی عائد کی گئی ہیں وہ عدالت کے ذریعے ہونا چاہیے تھیں، اگر عدالت کو مطمئن کرنے کی بات ہے تو جو عدالت حکم دے گی ہمیں قبول ہوگا۔
نوازشریف کے ایک اور وکیل اشتر اوصاف نے کہا کہ آرٹیکل 4 کے مطابق کسی شہری پر شرط عائد نہیں کی جا سکتی جس پر جسٹس باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ قانون تو سزا یافتہ کو باہر بھیجنے کا اختیار حکومت کو بھی نہیں دیتا، ہم چاہتے ہیں یہ معاملہ اتفاق رائے سے طے ہو، لکھ کر دیں کہ نوازشریف اور شہبازشریف وطن واپس آئیں گے۔
درخواست کی سماعت کے دوران شہباز شریف نے ٹیلی فون پر نواز شریف، مریم نواز اور اپنی والدہ سے مشاورت کی۔ اس دوران نواز شریف نے کہا کہ ای سی ایل سے ان کا نام نکالنے کے لئے حکومتی شرط غیر قانونی ہے، عدالت کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر ہوگا، عدالتی احکامات پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
عدالتی ہدایت کی روشنی میں امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی کا مسودہ لاہور ہائی کورٹ کے معاون کے حوالے کر دیا۔ بیان حلفی کا ڈرافٹ 2 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف صحت یاب ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے اور عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے۔
دوسری جانب ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے شہبازشریف کا بیان حلفی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاص مدت کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کی ہے، اس بیان حلفی میں کسی قسم کی ضمانت نہیں دی گئی، ایسی صورت میں ہم اس کو کیسے تسلیم کرسکتے ہیں۔ پچیس نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کیس کی اپیل بھی مقرر ہے، اگر نواز شریف نہیں آتے تو کیا ہو گا اس لیے اینڈیمنٹی بانڈ مانگے ہیں۔
اشتیاق احمد خان نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ڈرافٹ کے جواب میں حکومت نے بھی ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے، حکومت جب سمجھے گی کہ نواز شریف کی حالت ٹھیک ہے تو حکومت اپنا بورڈ ملک سے باہر چیک اپ کے لیے بھیج سکتی ہے، بورڈ یہ چیک کرے گا کہ نواز شریف سفر کر کے ملک میں واپس آ سکتے ہیں یا نہیں، عدالت کی جانب سے ضمانت مقررمدت کے لیے دی گئی ہے۔
دونوں جانب سے ڈرافٹ کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے کہا کہ عدالت اپنا ڈرافٹ تیارکرکے فریقین کے وکلا کو دے گی، عدالتی ڈرافٹ پر فریقین متفق ہوئے تو فیصلہ کیا جائے گا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں تیسری مرتبہ وقفہ کر دیا۔
حکومت نے بھی ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے، حکومت جب سمجھے گی کہ نواز شریف کی حالت ٹھیک ہے تو حکومت اپنا بورڈ ملک سے باہر چیک اپ کے لیے بھیج سکتی ہے، بورڈ یہ چیک کرے گا کہ نواز شریف سفر کر کے ملک میں واپس آ سکتے ہیں یا نہیں، عدالت کی جانب سے ضمانت مقررمدت کے لیے دی گئی ہے
عدالت کی جانب سے تیار کردہ مجوزہ ڈرافٹ وفاقی حکومت اور شہباز شریف کے وکلاء کو فراہم کیے گئے۔ شہباز شریف اور احسن اقبال نے بھی ڈرافٹ کا جائزہ لیا۔ عدالتی ڈرافٹ کے متن میں کہا گیا کہ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے 4 ہفتے کا وقت دیا گیا ہے لیکن اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہو سکتی ہے جب کہ حکومتی نمائندہ سفارت خانے کے ذریعے نوازشریف سے رابطہ کرسکے گا۔
بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے وکلا نے عدالتی ڈارفٹ منظور کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالتی ڈرافٹ منظورہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ عدالتی ڈرافٹ پرمکمل عملدرآمد کریں گے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالتی ڈرافٹ پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی ڈرافٹ میں معمولی ترامیم کے لیے تجاویز ججزکو چیمبرمیں بھجوادی۔
حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے ایک بار بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دی تھی تاہم اس کے لیے ان کی جانب سے 80 لاکھ پاؤنڈ، 2 کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر، 1.5 ارب روپے جمع کرانے کی شرط رکھی گئی تھی۔ گزشتہ روز نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہبازشریف کی جانب سے دائر درخواست کو قابل سماعت قرار دیا تھا۔
Comments are closed.