اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے لیکن اگر بھارت نے کوئی حرکت کی توبھرپور جواب ملے گا۔
شاہ محمود قریشی نے خطے میں امن وامان کی تشویشناک صورتحال کے بارے میں کہا کہ بھارت میں مودی سرکار کے ہتھکنڈوں کے خلاف عوام نے علم بغاوت بلند کر دیا ہے۔ پیر کو بھارتی اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں نے احتجاج کی کال دے دی ہے جب کہ لکھنو میں اویسی صاحب کی قیادت میں ایک بڑی احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا ہے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی حکومت کے شہریت کے متنازع بل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امتیازی شہریت ایکٹ کے خلاف 10 سے زیادہ بھارتی ریاستوں کے عوام سراپا احتجاج ہیں، بھارت کی پوری اپوزیشن، تمام اقلیتیں، بالخصوص مسلمان بل کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ دنیا بھر کے دارالخلافوں میں بھارت کے لوگوں نے احتجاجی مظاہروں کا شیڈول جاری کر دیا۔ کینیڈا، امریکا اور یورپ کے ممالک میں بھی احتجاج ہو رہا ہے۔
مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا مقبوضہ کشمیرمیں مسلسل کرفیو کو آج 139 دن ہو چکے ہیں، صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے ہندوستان کوئی فالس فلیگ آپریشن بھی کر سکتا ہے، لائن آف کنٹرول پر بھارت کی طرف سے اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ مودی سرکار خطرناک کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے جس سے پورے خطے کا امن متاثر ہو رہا ہے۔ دنیا کو اس صورتحال کا نوٹس لیناچاہیے۔ پاکستان امن پسند ملک ہے لیکن اگر بھارت نے کوئی حرکت کی توبھرپور جواب ملے گا۔ گزشتہ روز بھارت نے اشتعال انگیزی کی جس کا ہماری فورسز نے بھرپور جواب دیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ آج آر ایس ایس کی ہندوتوا سوچ نے بھارت کو تقسیم کر دیا ہے، سیکولر بھارت کے حامی ایک طرف اور ہندوتوا سوچ کے حامی دوسری جانب دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان نے نے پی فائیو کے سفراء کو بھی اس ساری صورتحال سے آگاہ کردیا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ کرسمس کی تعطیلات کے دوران بھارت کوئی ناٹک رچا سکتا ہے، قوم جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ دنیا کے بہت سے ممالک کمرشل مفادات کی وابستگی کے سبب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس بلانے کی تجویز پیش کروں گا، او آئی سی سے باقاعدہ درخواست کرنا ہوگی کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں، حالات اس نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں کہ اس پر مزید خاموش نہیں رہا جا سکتا۔
Comments are closed.