بچوں کیخلاف جرائم کی روک تھام کیلئے قومی اسمبلی نے زینب الرٹ بل منظور کر لیا

اسلام آباد: پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں نے بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لئے ‘‘زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایکٹ 2019 ’’ کو متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ قصور میں ریپ کے بعد قتل ہونے والی ننھی پری زینب کی لاش دو سال قبل آج ہی کے روز برآمد ہوئی تھی۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ وفاقی وزیرانسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بچوں کے خلاف جرائم کے سدباب کے لیے زینب الرٹ جوابی ردعمل اور بازیابی ایکٹ 2019 بل پیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

اس بل کے تحت قومی کمیشن برائے حقوقِ بچگان کا نام تبدیل کر کے ‘زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی’ رکھا گیا ہے، اور اس ادارے کی سربراہی ایک ڈائریکٹر جنرل رینک کا افسر کرے گا جس کی تعیناتی وزیراعظم قواعد وضوابط کے تحت کریں گے۔ یہ ادارہ بچے کی گمشدگی سے لے کر اس کی بحفاظت بازیابی اور بازیاب ہونے والے بچوں کی بحالی کے لیے موثر اقدامات کرے گا۔

بل میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال کرنے کے مقدمے میں دی جانے والی سزا کو 10 سال سے بڑھا کر 14 سال کر دیا جائے کم عمر بچے کو اغوا کرنے کے بعد قتل یا شدید زخمی کرنے یا خواہش نفسانی کے لیے فروخت کرنے والے کو سزائے موت دی یا پھر عمر قید تجویز کی گئی ہے۔ یا پھر زیادہ سے زیادہ 14 سال اور کم سے کم سات سال قید کی سزا دی جائے گی۔

اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جائیداد کے حصول کے لیے اگر 18 سال سے کم عمر بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے تو ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کو 14 سال قید اور جرمانے کی سزا ہوگی، جب کہ نابالغ بچے کو ورغلا کر یا اغوا کر کے اس کی مرضی کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر لے جانا یا اسے اس کے والدین یا قانونی سرپرست کی تحویل سے محروم کیے جانا قابل سزا جرم ہوگا۔

اس بل کے تحت ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے جس کا نمبر 1099 ہے اس کے علاوہ ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔ بل میں کہا گیا کہ جو افسر بچے کے خلاف جرائم پر دو گھنٹے میں ردعمل نہیں دے گا اسے بھی سزا دی جاسکے گی۔ تاہم بل کے مطابق یہ قانون صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لاگو ہوگا۔

اجلاس کے دوران وفاقی وزیرمنصوبہ بندی، ترقی واصلاحات اسد عمر کا کہنا تھا کہ 3 ماہ کے اندر اندر بچوں کے خلاف ہونے والے تمام جرائم کے کیسز کو حل کیا جائے گا۔ ہمارے بچے طاقتور لوگوں سے زیادہ حساس ہیں۔

بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زینب الرٹ بل جو میں نے پچھلی اسمبلی میں پیش کیا تھا لیکن اس اسمبلی کی مدت میں پاس نہ ہو سکا، آج پارلیمان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ‘اس ملک کے معصوم بچوں کی حفاظت پارلیمان اور حکومت کی اوّلین ذمہ داری ہونی چاہیے’۔

بل کے سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایجنسی کے قیام کے راستے کھل جائیں گے جہاں لاپتہ بچوں کے کیسز رپورٹ ہوں گے اور ان کے حوالے سے ایک خود کار نظام کے تحت الرٹ جاری ہو جائے گا۔

Comments are closed.