اسلام آباد: چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں لاقانونیت اوربیڈ گورننس ہے، قانون پرعمل درآمد ہونا چاہیے، سی ڈی اے احکامات ماننے سے انکاری ہے، عدالت ایک حکم جاری کرے توسی ڈی اے بند اور ملازمین فارغ ہو جائیں گے۔ چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کو5 مارچ کو طلب کر لیا گیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اسلام آباد کے آئی نائن انڈسٹریل ایریا میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ ڈی جی ماحولیاتی تحفظ فرزانہ الطاف اوراسلام آباد چیمبر آف کامرس کے نمائندے پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد میں صنعتی زون بنانے کی اجازت کس نے دی؟سنا ہے اسلام آباد اور کینبرا ہل ایک ساتھ ڈیزائن ہوئے۔ کینبرا ہل جس ڈیزائن سے بنا وہیں موجود ہے لیکن اسلام آباد ایک طرف خیبرپختونخوا دوسری طرف لاہور سے مل رہا ہے۔ اسلام آباد کے ماسٹر پلان کو بدلنے کی اجازت دی توایک ہفتے میں مارگلہ کی پہاڑیاں غائب ہوجائیں گی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ بلیو ایریا میں ہرجگہ کچرا نظر آتا ہے۔وہ رات کو ڈرائیور کے ساتھ اسلام آباد کا چکر لگاتے ہیں تو بڑی خوشبو آتی ہے۔اسلام آباد کا میئریہاں کم لندن میں زیادہ ہوتے ہیں۔گزشتہ روزٹی وی پرگرام میں میئرکے پورے ہفتے کا شیڈول بتایا گیا تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لگتا ہے میٹروپولیٹن کارپوریشن اورسی ڈی اے میں گھوسٹ ملازمین بھرتی کیے گئے۔سی ڈی اے کاچپڑاسی سرکاری زمینوں پرقبضہ کرا دیتا ہے۔سی ڈی اے سپریم کورٹ کے احکامات نہیں مانتا۔ اسے معلوم نہیں وہ کس چیزسے کھیل رہاہے۔ عدلیہ ریاست کا تیسرا ستون اورسی ڈی اے چھوٹا سا ادارہ ہے۔ آئین کے تحت نہیں چلنا تو قوم کواس کی ضرورت نہیں۔سب نے اپنے کام سے سمجھوتہ کر لیا۔ پورے ملک کا یہی حال ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری چاہے اسلام آباد میں بنا لیں لیکن اسٹیل فیکٹریاں گوجرانوالہ یا پشاور لےجائیں۔ پورے ملک میں دکانیں نظر آرہی ہیں۔ صنعت کار بیوپاری بن گئے۔ دکانوں میں اسمگلنگ کا مال فروخت ہورہا ہے۔لارنس پور میں دنیا کا بہترین اون کا کپڑا بنتا تھا جوبننا بند ہوگیا۔ ہاتھ سے کام کرنے والے قابل لوگ تھے پتہ نہیں ان کا کیا بنا۔
سپریم کورٹ نے چیئرمین سی ڈی اے، میئر اسلام آباد اور ڈی جی ماحولیاتی ایجنسی کو مل کرحل نکالنے کا حکم دیتے ہوئے اسلام آباد کو آلودگی سے پاک کرنے کا روڈ میپ طلب کر لیا۔
Comments are closed.