اسلام آباد: مرکزی تنظیم تاجران پاکستان نے ملک بھر میں فوری طور پر کاروبار کھولنے کا مطالبہ کیا ہے، تنظیم کے صدر محمد کاشف چوہدری کا کہنا ہے حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا اسے کورونا سے ہونے والی اموات کو روکنا ہے یا پھر لوگوں کو بھوک سے مرنے سے بچانا ہے؟
مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر محمد کاشف چوہدری نے اسلام آباد میں نیوز ڈپلومیسی سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ ملک کی تاجر برادری اس وقت انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہے، تاجر جو ماضی میں رمضان المبارک اور دیگر مواقع پر لوگوں کی امداد کیا کرتے تھے اب وہ خود مانگنے پر مجبور ہیں۔
کاشف چوہدری نے کہا تاجرنہ تو بجلی کے بل دے سکتا ہے، نہ دکانوں اور گھروں کے کرائے اورملازمین کی تنخواہیں دینے کے قابل ہیں، یہاں تک کہ تاجر کے پاس اپنے گھر کا خرچہ چلانے کے بھی پیسے نہیں رہے، کورونا وباء اور اس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے باعث ملکی معیشت کی کشتی ڈوبنے جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملکی معیشت ڈوب گئی تو پھر ملک کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا، اس لئے اب صنعتی و کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کے سوال ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔
حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ریلیف پیکج سے متعلق ایک سوال پر کاشف چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت نے تاجر برادری کے لئے کوئی ریلیف پیکج دیا ہی نہیں، وزیراعظم کی جانب سے بیروزگار افراد کیلئے حالیہ اعلان کردہ پروگرام میں بھی تاجروں کو مکمل نظرانداز کر دیا گیا ہے، جس ایپ یا پورٹل پر رجسٹریشن کے ذریعے بیروزگار افراد کو 12 ہزار روپے دینے کا کہا گیا ہے اس پر تاجروں کیلئے کوئی آپشن یا سہولت ہی نہیں۔
مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر نے کہا کہ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہےکہ اس پورٹل کے ذریعے صرف حکومت پاکستان سے رجسٹرڈ اداروں کے بیروزگار ملازمین کو ریلیف ملے گا، جب کہ ملک میں رجسٹرڈ ملازمین کی تعداد نہ ہونےکے برابر ہے، یہاں تو ملازمین کی اکثریت غیر رجسٹرڈ ہے۔ اسی طرح بجلی بلوں میں ریلیف کا پیکج بھی ناقابل عمل ہے، حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اعلان کرتی کہ جب کاروبار کھلیں گے تو تین ماہ کے بل حکومت ادا کرے گی۔
محمد کاشف چوہدری نے کہا ہے کہ اس کے ساتھ ٹیکسوں میں بھی تاجر برادری کو کوئی رعایت دی گئی ہے اور نہ کرایوں میں کوئی ریلیف دیا گیا ہے، دراصل حکومت کی جانب سے فی الحال صرف دعوے کیے جا رہے ہیں، ملک کی تاجر برادری کیلئے عملاً کوئی امدادی یا ریلیف پیکج نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے ایس او پیز پر عملدآمد کرانا حکومتی ذمہ داری ہے، ہم اپنے تاجروں کو اس بات کا پابند بنائیں گے کہ وہ حفاظتی تدابیر اختیار کریں، ہر دکاندار کے لئے ماسک، دستانے پہننا اور سینیٹائزر کی فراہمی یقینی بنانے کا پابند کریں گے، اگر بینکوں، نادرا سمیت دیگر سرکاری دفاتر کے باہر لگی قطاروں سے کورونا نہیں پھیل رہا تو جو چند ایک بند کاروبار ہیں انہیں کھولنے سے بھی وباء نہیں پھیلے گی۔
مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر کا کہنا تھا کہ حکومت تاجروں کو کورونا پھیلاؤ کا مورد الزام ٹھہراتی ہے تو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، گورنر سندھ عمران اسماعیل سمیت دیگر حکومتی اور سیاسی شخصیات کو کورونا وائرس ہوا اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے، کیا اس کا الزام وزیراعظم پر عائد کیا جائے ؟
کاشف چوہدری نے کہا کہ حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا اسے کورونا سے ہونے والی اموات کو روکنا ہے یا پھر لوگوں کو بھوک سے مرنے سے بچانا ہے؟ ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ جینے اور آگے بڑھنے کا سلیقہ سیکھنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے یہ وباء مزید ایک یا دو سال تک برقرار رہے، اس لئے ہمیں کورونا کے ساتھ معیشت کو چلانا ہوگا، اسی طرح پاکستان کی معیشت قائم رہ سکے گی اور بیروزگاری کا طوفان روکا جا سکے گا، ورنہ کورونا سے زیادہ لوگ بھوک سے مریں گے۔
Comments are closed.