نگہت بہت عرصے بعد پاکستان آئی تھی لندن اتنا دور تو نہیں تھا مگر زندگی کے نشیب و فراز نے اسے زندگی سے دور ہی کر دیا تھا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی باری باری کچھ مہینوں کے فرق سے ماں باپ چل بسے، امی ابو کے اچانک دنیا سے جانے کے بعد اسے پاکستان آنے میں کوئی دلچسپی ہی نہ رہی بہن بھائی تو پہلے ہی اپنی اپنی دنیا میں مصروف تھے، سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے امی ابو کے سب سے زیادہ قریب بھی یہ ہی تھی۔ ان کا دنیا سے جانا نگہت کی زندگی میں ایک بہت بڑا خلا پیدا کر گیا۔
وقاص کا تو شادی کے بعد سے ہی اس کے ساتھ سرد سا رویہ تھا جیسے آپ کوئی چیز خرید کر بھول گئے ہوں شادی کے تین سال گزرنے کے بعد بھی اولاد کی خوشی نہ دینے پرسسرالیوں کے طعنے اور وقاص کی سرد مہری بڑھتی جارہی تھی پھر اس نے جاب کرنے کا سوچا۔ تعلیم یافتہ تو تھی ہی ایک دو کورسز کرنے کے بعد اسے اسکول میں جاب مل گئی اور زندگی قدرے مصروف اور بامصرف ہوگئی۔
تمام دن بچوں میں گزار کر وہ بہت خوش رہتی تھی۔ مگر اچانک شادی کے پانچ سال کے بعد وقاص کا پاکستان شفٹ ہونے کا فیصلہ اسے سمجھ نہیں آیا اور پھر آناً فاناً سب کچھ ہو گیا اور پاکستان آنے کا مقصد بھی اس پر جلد ہی عیاں ہو گیا وقاص نے اپنی کزن سے دوسری شادی کرلی تھی گھر اور بزنس تو اس نے پہلے ہی یہاں سیٹ کر رکھا تھا اس لیے معاشی طور پر کوئی پریشانی نہیں تھی۔
’’تم اگر میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہو تو میں تمھیں آزاد کر دوں گا تم پر کوئی زبر دستی نہیں“ وقاص نے سپاٹ لہجے میں نگہت سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’مجھے کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی مجھے آپ سے آزادی چاہیے“ نگہت نے کمال ضبط سے کہا طلاق لے کر جاتی بھی تو کہاں۔ اب اسے وقاص کا اس ملک سے اچانک آنے کا پلان سمجھ آگیا تھا۔ وہ اپنی سوکن کے ساتھ اسی گھر میں رہ رہی تھی اور دونوں کو دیکھ کر خون کے گھونٹ پیتی رہتی۔
’’ارے یہ مٹھائی کا ٹوکرا کون لایا ہے؟ کچن میں رکھی مٹھائی کو دیکھتے ہی نگہت نے ملازمین سے پوچھا
’’خیر سے وقاص کو اللہ نے اولاد ہونے کی نوید سنائی ہے کیوں نہ مٹھائیاں بانٹیں“ ساس کی تیز اور خوشی سے معمور آواز نگہت کے کانوں سے ٹکرائی (ابھی پچھلے مہینے ہی وہ لندن سے بیٹے اور نئی نویلی اپنی بہو جو ان کی بھانجی بھی تھی اسے ملنے آئیں تھیں) نگہت جیسے ٹوٹ سی گئی اور چپ چاپ کمرے میں آگئی۔
دل انتہائی اداس تھا اور اسی کیفیت میں وہ کب گاڑی لے کر اپنے پرانے محلے پہنچ گئی اسے پتا ہی نہیں چلا جہاں اس نے اپنا بچپن اور نوجوانی گزاری تھی،’’آہ وہ بھی کیا دن تھے“ نگہت نے ٹھنڈی آہ بھری۔۔اسے آج اپنی بچپن کی دوست راحیلہ بہت یاد آرہی تھی جس کی شادی اس کی شادی کے ایک سال بعد اسی شہر میں ہوئی تھی۔
اس نے اچانک اس کے امی ابو کے گھر کا دروازہ کٹھکٹھایا تو دروازہ آنٹی نے کھولا بہت پیار سے ملیں “آنٹی مجھے راحیلہ کے گھر کا ایڈریس چاہیے تھا بہت یاد آرہی ہے اس کی“ نگہت نے جلدی سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ آنٹی کا چہرہ تاریک ہو گیا اور اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ اندر داخل ہوتے ہی اسے راحیلہ بیٹھی نظر آئی جو کسی بچے کو کھانا کھلا رہی تھی غور کرنے پر نگہت نے دیکھا وہ بچہ جو محض ایک سال کا لگ رہا تھا نارمل نہیں تھا اور راحیلہ بہت کوششوں سے اسے کھلانے کی تگ و دو کر رہی تھی۔
نگہت کو دیکھتے ہی راحیلہ کی بانچھیں کھل گئیں پرجوش انداز میں گلے لگتے ہوئے کہنے لگی آج یہ چاند کہاں سے نکل آیا “ نگہت تم تو ان پانچ سالوں میں بالکل نہیں بدلی ویسی کی ویسی حسین اور جوان“راحیلہ محبت سے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’اور تم نے اپنا کیا حال بنا لیا ہے لگ رہا ہے پچاس سال کی ادھیڑ عمر عورت کو دیکھ رہی ہوں کتنی فریش اسکن ہوتی تھی تمھاری“ نگہت نے اسے اوپر سے نیچے تک غصیلی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ لہجے میں دکھ تھا اسے اپنی یہ مخلص دوست بہت عزیز تھی۔۔۔’’تم لوگ بیٹھ کر آرام سے باتیں کروں میں چائے بناتی ہوں “راحیلہ کی امی شفقت بھرے انداز میں بولیں۔
’’نگہت پاکستان آئی ہوئی ہو کیا، کتنے دنوں کے لیے؟ راحیلہ کے اس سوال پر نگہت کا دل بھر آیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سب صورتِ حال بتاتے ہوئے انتہائی دُکھی لہجے میں کہنے لگی “اب میری زندگی میں کیا بچا ہے سب کچھ ختم ہو گیا اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو میں کب کا اپنے آپ کو ختم کر لیتی۔ اولاد نہ ہونے کی اتنی بڑی سزا مجھے وقاص نے دی، مجھے بتاؤ اس میں میرا کیا قصور تھا “نگہت کے آنسو مسلسل ٹپک رہے تھے۔
اچانک اسے خیال آیا تم یہاں کیا کر رہی ہو راحیلہ تمھیں تو اپنے شوہر کے گھر ہونا چاہیے کیا رہنے آئی ہو؟ نگہت کے اس سوال پر راحیلہ نے نفی میں سر ہلایا، میں اب یہاں ہی رہتی ہوں، اور تمھارے شوہر اور یہ بچہ بیٹا ہے نہ تمھارا ؟ نگہت نے ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ ڈالے۔
اس بچے کے باپ نے مجھے دو سال پہلے طلاق دے دی تھی یہ کہ کر کہ وہ ایک زہنی جسمانی معذور بچے کے علاج اور ضروریات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ تب سے میں یہاں ہی ہوں ایک اسکول میں جاب کر رہی ہوں اور شام کو ٹیوشن پڑھاتی ہوں تم تو جانتی ہو ایسے بچوں کی ضروریات نارمل بچوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں، بس میں نے اپنی زندگی اپنے بچے کے لیے وقف کر دی ہے۔”راحیلہ کے لہجے میں پختگی تھی۔ اگلے مہینے یہ تین سال کا ہو جائے گا دیکھنے میں چھوٹا سالگتا ہے اب اس کی ضروریات بھی بڑھتی جا رہی ہیں مگر میں ہر ممکن اس کا علاج کرواؤں گی راحیلہ کی باتوں سے نگہت جیسے سکتے میں تھی، تو اس کا باپ مطلب تمھارا۔۔۔۔
’’اس نے شادی کر لی ہے اور چھ ماہ کی اس کی بیٹی ہے بالکل صحت مند“ راحیلہ نے مسکراتے ہوئے کہا تم پر اتنا کچھ گزر گیا اور مجھے بھنک تک نہیں لگی نگہت نے تاسف سے کہا کتنی ظالم ہے یہ دنیا یہاں کے لوگ بے انصاف،نام نہاد جرم کی سزا سنا دینے والے نگہت نے انتہائی نفرت سے کہا’’مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں اللہ پاک ہی اپنے پیارے بندوں کو آزماتا ہے “راحیلہ کی بات سن کر نگہت غصے سے بولی کیوں گلہ نہیں کیسے تمھارا شوہر اپنی اولاد سے منہ موڑ سکتا ہے زمہ داری ہے اس کی یہ بچہ”باہر کے ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔
’’جب دو سال پہلے میرے شوہر نے مجھے طلاق دے کر گھر سے نکالا تو میں دنیا سے انتہائی متنفر اور اپنے رب سے گلے شکوے کرنے لگی تھی کہ آخر میرا کیا قصور تھا جس کی مجھے سزا ملی مگر پھر ایک دن میں نے حضرت ایوب علیہ السلام کا قصہ پڑھا ہم بچپن سے اسلامیات کی کتابوں میں“صبرِایوب“ کا ذکر پڑھتے تھے مگر نگہت یقین کرو ہم حقیقی واقعات سے ناواقف ہیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت، اولاد اور بھر پورصحت سے نوازا تھا مگر پھر اللہ پاک نے ان سے سب کچھ واپس لے لیا۔ ان کی اولاد بھی وفات پا گئی اور انھیں ایک شدید بیماری لاحق ہو گئی سب نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا سوا ان کی بیوی کے۔۔۔ بہت تکلیف کے دن اور راتیں تھیں جسے انھوں نے کمال صبر سے گزارا سب سے اہم بات یہ کہ بنا کسی شکوے اور گلے کے وہ بس اپنے رب کی اس دی ہوئی آزمائش پر راضی تھے۔
شیطان ان کے صبر سے بےحد حسد کرتا تھا بہت کوشش کے باوجود بھی وہ آپ کے صبر کو نہ توڑ پایا تو آپ علیہ السلام کی بیوی کے پاس انسانی شکل میں آیا اور کہنے لگا کیا تم نہیں چاہتی کہ تمھارا مرد صحت یاب ہو جائے میں اسے صحت یاب کر سکتا ہوں مگر اگر کوئی پوچھے تو اسے کہنا اسے میں نے شفا دی ہے ۔آپ علیہ السلام کی زوجہ نے جب آپ کو یہ بات بتائی تو آپ بہت ناراض ہوئے ان سے اور بہت ڈانٹا اپنی بیوی کو ۔بہت پریشان ہوئے کہ شیطان ان کے گھر تک کیسے پہنچ گیا، دعا کرنے لگے اپنے رب سے اور جانتی ہونگہت یہ کوئی چند مہینوں کی آزمائش نہیں تھی کئی سالوں تک وہ ان تکلیفوں اور اذیتوں کو برداشت کرتے رہے مگر زبان پر شکوہ نہیں لائے ان کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں جو اللہ کو پیارے ہوئے مال دولت دوست احباب سب نے ساتھ چھوڑ دیا اور انتہائی تکلیف دہ بیماری سے دو چار ہوئے کہ چلنا پھرنا بھی مشکل تھا مگر ان کا صبر بے مثال تھا “نگہت کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
ہم اکثر کہتے ہیں کہنا آسان ہے مگر جس پر گزرتی ہے اسے پتا ہوتا ہے یہ بات کسی حد تک درست ہے مگر ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کسی کو پتا ہو یا نہ پتا ہو ہمارے رب کو سب معلوم ہوتا ہے وہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے۔۔۔ ’’ اب دیکھو نہ تم نے اپنے شوہر سے طلاق نہیں لی اور میرے شوہر نے مجھ سے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا اور ہاتھ میں کاغذ تھما کر چلتا کیا “راحیلہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی میرے رب کی مرضی یہ ہی تھی اور اس میں یقیناً کوئی مصلحت ہی ہوگی‘‘۔
حضرت ایوب علیہ السلام کو اللہ پاک نے صبر اور شکر کا بہترین اجر دیا اور دنیا میں انھیں مال اولاد اور صحت سے پھر سے نوازا ۔اللہ کے حکم سے زمین پر پاؤں مارا اور چشمہ ابل پڑا جس سے نہا کر اور جس کا پانی پی کر وہ مکمل صحت یاب ہو گئے۔۔۔ سبحان اللہ
یہ ہی سوچتی ہوں ان انبیاء کی زندگیاں ہمارے لیے روشن مثالیں ہیں ۔نگہت مجھے لگتا ہے میری ہر تکلیف اور دکھ کے صلے میں میرے رب نے میرے لیے اجر لکھ لیا ہے جب میں اپنے معذور بچے کو کئی کئی گھنٹے لگا کر کھلاتی ہوں اس کو نہلاتی ہوں اس کی صفائی کا خیال رکھتی ہوں بھلے میں کتنی بھی تھکی ہوئی کیوں نہ ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے میرا رب مجھے خاص طاقت دے رہا ہے خاص محبت ایک اہم ڈیوٹی جس کا انعام رب کے پاس مقرر ہو گیا ہے ۔اپنی اولاد جیسی بھی ہو جان سے زیادہ پیاری ہوتی ہے مگر انسان تھکنے لگتا ہے اپنے آپ سے اور اپنی ہی ذات کو اندھیروں میں دھکیلنے لگتا ہے۔
صبر کی اس عظیم مثال کو پڑھ کر میں نے یہ سیکھا “بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘ اور آسانیوں کے سلسلے میں نے اپنے اندر محسوس کیے، گھر واپسی کا راستہ انتہائی روشن تھا ہر شے دھلی دھلی اور رنگین لگ رہی تھی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئی نگہت آسانیوں کی منزلوں کو طے کر رہی تھی جسے وہ اپنے اندر ہوتے ہوئے بھی محسوس نہیں کر پاتے۔
پھر کچھ سالوں بعد ہی راحیلہ کا امریکہ سے بہت اچھا رشتہ آگیا ۔اس کے شوہر عمر میں اس سے دوگنے تھے مگر ایک بہت ہی اچھے انسان تھے اب راحیلہ ماشاء اللہ ایک پیاری سی بیٹی کی ماں بھی ہے ۔بیٹے کی بہتر دیکھ بھال کے لیے اسے اُس ملک میں بہت سی سہولیات میسر تھیں، راحیلہ کے چلے جانے سے نگہت بہت اکیلی ہو گئی تھی۔
مگر آج کئی سالوں بعد رب نے اسے اولاد کی خوشخبری کی نوید سنا دی وقاص بھی بہت خوش تھا اس کو اللہ تعالی نے اپنی دوسری بیوی سے ایک بیٹا عطا کیا تھا مگر چار سال گزرنے کے بعد بھی وہ دوبارہ ماں نہیں بن سکی۔ نگہت نے ہمیشہ اس بچے کو اپنی اولاد جیسی شفقت دی تھی اس نے اپنے صبر اور محبت سے وقاص کے دل میں خاص جگہ بنا لی تھی اور آج رب نے اسے اس کے صبر کا انعام دیا ۔راحیلہ کو فون ملاتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی۔ ہم اپنے عظمتوں والے رب سے اجر کی خواہش رکھتے ہیں اور وہ ہمیں اجرِ عظیم عطا کرتا ہے۔
Comments are closed.