کشمیری خواتین کی حالت زار بارے اقوام متحدہ میں دہرا معیارختم ہونا چاہیے، منیر اکرم

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کشمیری خواتین کی عصمت دری اور جنسی تشدد کے خلاف ایک بار پھر آواز اٹھا دی، سلامتی کونسل میں مباحثے کے دوران یوکرین تنازعہ سے متاثرہ خواتین کی حالت زار سے متعلق دیئے گئے حوالے پر کہا کہ عالمی برادری کو کشمیری خواتین کیخلاف جرائم کیوں کم دکھائی دیتے ہیں، سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ کے تمام امور و عوامل میں دہرا معیار ختم ہونا چاہیے۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں خواتین، امن اور سلامتی (ڈبلیو۔پی۔ایس) ایجنڈے کے حوالے سے اعلیٰ سطح کی بحث میں”شراکت داری کے ذریعے اقتصادی شمولیت” کے موضوع پر اجلاس ہوا، پاکستان کے مستقل مندوب ایمبیسڈر منیر اکرم نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ تنازعات کے پیش نظر خطرات سے دوچار خواتین اور لڑکیوں کو درپیش چیلنجز سے جامع، موثر اور غیرامتیازی انداز میں نمٹا جائے تا کہ ان کے بنیادی حقوق کی پامالی کو روکا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں یوکرین میں جاری تنازعے سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کی حالت زار کا حوالہ دیا گیا ہے،  سلامتی کونسل جنگ کے بعد کے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی فکر مند ہے، لیکن سلامتی کونسل کے مباحثوں میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جاری تشدد کم نظر آتا ہے، حالانکہ ہزاروں کشمیری خواتین، لڑکیوں کیخلاف جنسی تشدد اور عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ بھارت کے غیرقانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خواتین اور بچیوں کی حالت زار کو عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے،سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ کے تمام امور و عوامل میں دہرے معیار پر قابو پانا چاہیے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بین الاقوامی شراکت داروں، بشمول بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور نجی شعبے کو خواتین کی اقتصادی شمولیت کے لیے صنفی برابری کی بنیاد پر مبنی نقطہ نظر کو فروغ دینا چاہیے۔ تنازعات سے متاثرہ ممالک کو خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے اپنے عدالتی، قانون سازی اور انتظامی شعبوں کی تشکیل کے لیے فریم ورک کے اندر تکنیکی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسی تمام کوششوں کو ریاستی خود مختاری اور پالیسیوں اور پروگراموں کی قومی ملکیت کے مکمل احترام کے ساتھ فروغ دیا جانا چاہیے۔

ایمبیسڈر منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان میں خواتین نے زندگی کے ہر شعبے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کرتی رہیں گی۔ پاکستانی خواتین نے بطور وزیراعظم، قومی اسمبلی کی سپیکر، قائد حزب اختلاف، کابینہ کی وزراء، ججز، آرمی آفیسرز، فائٹر پائلٹ فرائض سرانجام دیئے، پاکستانی سفارت کاروں میں سے 20 فیصد خواتین ہیں اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، اسی طرح اقوام متحدہ امن مشن کیلئے پاکستانی دستوں میں  مسلح افواج کی خواتین افسر و اہلکار بھجوائی گئیں اور امن دستوں میں ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا خواتین، امن اور سلامتی ایجنڈا دنیا میں امن و سلامتی کے قیام کے لیے ایک اہم کوشش ہے، سلامتی کونسل کی قرارداد 1325 اور اس ڈبلیو پی ایس ایجنڈے کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے چار اہم ستون روک تھام، شرکت، تحفظ اور امداد و بحالی ہیں، ان چاروں ستونوں کی بنیاد پائیدار و مسلسل کامیابی پر ہونی چاہیے، خواتین کو تمام تنازعات کی روک تھام، امن قائم کرنے اور قیام امن کی کوششوں کا حصہ ہونا چاہیے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب نے کہا کہ اس ایجنڈے کو فعال بنانے والے اہم کرداروں کو ترجیح دینے کی ضرورت سے اتفاق کرتے ہیں، تنازعات کی روک تھام، امن قائم کرنے اور قیام امن کی کوششوں میں خواتین کو شامل کیا جانا چاہیے تا کہ تنازعات کے بعد تعمیر نو کے دوران امداد و بحالی کی سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت سے انہیں اقتصادی طورپر بااختیار بنانے کے عمل کو یقینی بنایا جا سکے۔

Comments are closed.