اسلام آباد: پاکستان اور سری لنکا کل ایشیاء کپ کے فائنل میں آمنے سامنے ہوں گے ، گروپ فور کے آخری میچ میں سری لنکا نے فیورٹ پاکستان کو شکست دے کر خطرے کی گھنٹی بجا دی ، پورے ایشیاء کپ میں پاکستان کی بولنگ بہترین رہی اورنوجوان فاسٹ بولرز نے کسی بھی لمحے شاہین شاہ آفریدی کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ، نسیم شاہ ، حارث روف اور محمد حسین کی کارکردگی قابل ستائش رہی لیکن پاکستان، بھارت اور سری لنکا کیساتھ اپنے دونوں میچز صرف اور صرف خراب بیٹنگ کی وجہ سے ہارے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیں کہ ایسا کیوں ہوا تو چند اہم چیزیں کھل کر سامنے آتی ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے کوئی بہت بڑا کرکٹ ایکسپرٹ ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ کپتان بابر اعظم جن پر تینوں فارمیٹس میں پاکستان کا مکمل تکیہ ہے وہ اب تک تمام میچز میں مکمل فلاپ ہیں اور اب تک کے پانچ میچز میں ان کا سب سے زیادہ اسکور 30 رہاہے ، رہی سہی کسر مڈل آرڈر نے پوری کر دی ۔
ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کا بیٹنگ آرڈر ہی بابر اور رضوان کی کارکردگی کو دیکھ ترتیب دیا گیا تھا جس کا خمیازہ اب بھگتنا پڑ رہاہے اور اگر فائنل میں بھی یہی حا ل رہا تو پھر سلیکٹرز سے لیکر کپتان بابر اعظم تک کوئی بھی شائقین کرکٹ غیض اور غضب سے بچ نہیں پائے گا۔ بابر اعظم کی خراب کارکردگی کے باجود کہیں سے ایسا محسو س نہیں ہورہاہے کہ وہ آوٹ آف فارم ہیں یا ان کے ساتھ کچھ غلط چل رہاہے لیکن فخر زمان صلاحیتوں کا پول تومکمل طو رپر کھل چکا۔ پانچوں میچز میں جس طرح کے شارٹس کھیل کر آوٹ ہوئے وہ ایک کلب لیول کے کرکٹر بھی نظر نہیں آرہے ،ان کی ٹائمنگ نے ان کی تکنیکی خامیوں کو بھی چھپا رکھا تھا، ٹائمنگ غائب ہوئی اور اب کوئی بھی شارٹ کھیلتے ہوئے ان کی باڈی ہی بیلنس نہیں رہتی ، وہ شارٹ ایک طرف کھیل رہے ہوتے تو ان کی باڈی مکمل طور پر دوسری طرف گری ہوتی ہے ۔ہر سیریز میں ایک میچ کی کارکردگی پر جتنے مواقع انہیں دئیے گئے ہیں شاہد ہی کسی دوسرے پلئیر کو ملے ہوں ، فخر زمان نے چمپئین ٹرافی میں بھارت کے خلاف اننگز سے لیکر اب تک جب بھی پاکستان کے لیے اچھی اننگز کھیلی ہمیشہ انہیں چانس ملے لیکن اب مسلسل ناقص کارکر دگی کے باجود اسکواڈ میں شامل حیدر علی کو ایک موقع بھی نہ دینا افسوسناک ہے ۔ بابر اعظم ، ثقلین مشتاق اور محمد یوسف نے مل کر کیا کھچڑی پکا رکھی ہے ابھی تک کسی کی سمجھ میں نہیں ۔آرہی ۔
بیٹنگ لائن میں چوتھے ، پانچویں اور چھٹے نمبر پر تین کھلاڑیوں کو مسلسل کھیلایا جا رہا ہے جن میں افتخار احمد، آصف علی اور خوشدل شاہ شامل ہیں۔ ان تینوں کو ٹیم میں یہ گمان کرتے ہوئے رکھا گیا ہے کہ بابر اور رضوان کبھی بھی 10 اوورز سے پہلے آوٹ نہیں ہوں گے ، پھر فخر زمان آئیں گے اور تیرویں ، چودویں اوور کے بعد ان کی بیٹنگ آئے گی اور یہ جاتے ہی بلا گھمائیں گے اور اگر سب نے دو ، دو چھکے بھی لگا دئیے تو کام بن جائے گا لیکن اب جب انہیں دس اوورز سے پہلے آنا پڑا تو پتا چلا کہ ایک مکمل بیٹسمین کی اہمیت کیا ہوتی ہے جو سیچویشن کے مطابق کھیل سکے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا، پاکستان کے پاس فخر زمان ، افتخار احمد ، آصف علی اور خوشدل شاہ کے متبادل نہیں ہیں یا ٹیم کے کپتان بابر اعظم جان بوجھ کر اپنے مستقبل کو لاحق کسی بھی ممکنہ خطرے سے بچنے کےلیے دوسرے پلئیرز کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ کیا اس وقت پاکستان کی رنز مشین شان مسعود کو فخر زمان کی جگہ ٹیم کا حصہ نہیں ہونا چاہیے ؟ انہیں کس بنیاد پر ایشیاء کپ کے لیے منتخب نہیں کیا گیا؟آسٹریلیا اور انگلینڈ میں اپنے خرچے پر بہترین کوچنگ لینے بعد شان مسعود نے کاکردگی سے ثابت کیاکہ وہ اس وقت پا کستان سے بہترین اور اسٹائلش بلے باز چکے ہیں ، کاونٹی کرکٹ نے یکے بعد دیگرے دو ڈبل سنچریاں اور سنچری داغ کر سب کو حیران کر دیا۔ اس کے باجود بابر اعظم نے اپنی توجہات پیش کرتے ہوئے انہیں ٹیم کا حصہ نہیں بننے دیا اور اب فخر زمان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے ۔ شان مسعود یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر بابر اعظم اور رضوان نے اوپن ہی کرنا ہے تو وہ کسی بھی نمبر پر کھیلنے کے لیے تیارہیں۔
اب آتے ہیں حیدر علی ، شعیب ملک ، حارث سہیل اور عبد اللہ شفیق کی جانب ، کیا یہ چاروں بیٹسمین میچ کی کسی بھی سیچویشن کو ہینڈل کرنے کی صلا حیت نہیں رکھتے ؟ کیا ان میں بوقت ضرورت چھکا مارنے کی صلاحیت نہیں، یا ہمیں صرف وہ بیٹسمین چاہییں جو ہر میچ میں ایک یا دو چھکے لگا کر پویلین واپس لوٹ جائیں یا ان کی بنیادپر ہی ہیرو بن جائیں۔
بابر اعظم کے بڑا پلئیر ہونے میں کوئی شک نہیں ،لیکن پاکستان کرکٹ میں بابر اعظم سے بھی بڑے اسٹارز گزرے ہیں، انڈین ٹیم میں ویرات کوہلی کا طوطی بولتا تھا کہ لیکن ایک وقت آیا کہ ان کے بُرے دن شروع ہوئے تو ان کی کپتانی بھی گئی ، بابر اعظم کیساتھ بھی ایسا ہوسکتاہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کا کوئی متبادل ٹیم میں موجود ہو، ایسا پلئیر جس کی پہلے ٹیم میں پانی جگہ پکی ہو اور پھر وہ کپتانی کے گرُ بھی جانتا ہو، بابر اعظم ایسا کبھی نہیں چاہییں گے ایسا کوئی کھلاڑی ٹیم میں ہو، پاکستانی کرکٹ ٹیم کی سیاست کو سمجھنے والے تجزیہ کار اور سابق کھلاڑی شا ن مسعود کی واپسی میں بابر اعظم کے ان خدشات کو بڑی رکاوٹ قرار دے رہے ہیں۔
میری رائے میں اگر پاکستان کل ایشیاء کپ جیتے گا تو اس کی بنیاد بابر اعظم اور رضوان کی بیٹنگ ہو گی ، اچھا اسٹارٹ نہ ملا تو شاداب اور محمد نواز کچھ کر پائیں گے نہ بولرز ہمیں بچا سکیں گے ۔ اگر کوئی یہ توقع کر رہا ہے کہ افتخار ، آصف اور خوشدل تنہا ہمیں سری لنکا کے خلاف فاتح بنا سکتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔پاکستان کرکٹ ٹیم کی منیجمنٹ اور بابر اعظم کو ا نا کے گھوڑے سے نیچے اتر کر پاکستان کے لیے سوچنا ہوگا ورنہ ان ٹلرز کے سر پر آئندہ ماہ آسٹریلیا میں کھیلا جانے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ جیتنے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں ۔۔پاکستان ایشاء کا کپ فاتح بن گیا تو ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ساری خامیاں چھپ جائیں گی اور ،،ہمارا فخر،،اور ،،ہمارا افتخار،، سب مل کر ورلڈکپ میں ہماری نہیاڈبو دیں گے او ر پھر شاہد بابر اعظم اپنی کپتانی بھی نہ بچا سکیں۔۔۔
Comments are closed.