اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے میگا اسکینڈل میں سابق صدر آصف علی زرداری سمیت 13 ملزمان پر پہلی فرد جرم عائد کردی گئی۔ ملزمان کے صحت جرم سے انکار پر عدالت نے پارک لین ریفرنس میں آصف زرداری و دیگر ملزمان کے خلاف باقاعدہ ٹرائل شروع کرتے ہوئے نیب کے تین گواہوں کو طلب کر لیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد اعظم خان نے پارک لین ریفرنس کی سماعت کی تو سب سے پہلے سابق صدر آصف علی زرداری کی بلاول ہاؤس کراچی سے ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری لگائی گئی، عدالت پیش ہونے والے دیگر ملزمان کی حاضری کے بعد فرد جرم عائدکرنے کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہوا۔
مقدمے میں شریک ملزمان اقبال خان نوری اور طحہٰ رضا نے فرد جرم کی کارروائی روکنے کی استدعا کی، ملزمان کے وکلائ نے موقف اپنایا کہ فرد جرم سے قبل اپنے موکلان سے ملاقات کی اجازت دی جائے، سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ان کے وکیل فاروق ایچ نائیک سپریم کورٹ میں ایک اور مقدمے کی سماعت میں مصروف ہیں اس لئے فرد جرم کی کارروائی موخر کی جائے۔
عدالت نے آصف زرداری سمیت تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کردی، فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو الزام پڑھ کر سناتے ہیں ،آپ جواب دیجیے گا، چارج شیٹ کے الزامات سننے کیلئے وکیل کی ضرورت نہیں،اس کے بعد سب کی ملاقات بھی کرائی جائے گی۔
آصف زرداری نے کہا کہ مجھے پتہ ہے فردجرم کیسے لگتی ہے، 30 سال سے کیس بھگت رہا ہوں، آپ آرڈر میں لکھیں کہ میرا وکیل نہیں، جج احتساب عدالت نے ریمارکس دیئے کہ مسٹر آصف علی زرداری! میں آپ کو چارج شیٹ سنا رہا ہوں۔ آپ پر الزام ہے کہ آپ نے بطور صدر پاکستان نیشنل بنک پر دباو ڈال کر قرض لیا، اور آپ نے جعلی فرنٹ کمپنی بنا کر نیشنل بنک کا قرض خردبرد کیا۔
فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ آصف زرداری پارک لین کمپنی کے ڈائریکٹر تھے، فراڈ کا منصوبہ تیارکیا، غیرقانونی کام کو کور دینے کے لئے فرنٹ کمپنی بنائی گئی، آصف زرداری نے فراڈ سے حاصل رقم کو اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کیا، جس کے بعد پے آرڈرز کے ذریعے آصف زرداری نے وہی رقوم جعلی اکاؤنٹس میں ڈالیں
فرد جرم کے مطابق آصف زرداری نے بطور صدر اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، آصف زرداری نے بدنیتی سے قرض لینے کے لئے فرنٹ کمپنی پارتھینون بنائی، انہوں نے بطورصدر پاکستان اثر انداز ہو کر قرض کی رقوم جاری کرائیں۔
احتساب عدالت کی جانب سے آصف علی زرداری پر فردجرم عائد کیے جانے کے بعد سابق صدر نے صحت جرم سے انکار کر دیا اور موقف اپنایا کہ وہ ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہیں، عدالت نے بلاول ہاوس کراچی میں موجود نیب اہلکار کو آصف علی زرداری کے انگوٹھا اور دستخط لینے کی ہدایت کی
عدالت نے مجموعی طور پر 13 ملزمان پر باری باری فرد جرم عائد کی، ان میں تین کمپنیاں پارک لین کمپنی، پارتھینون کمپنی اور ٹریکم پرائیویٹ لمیٹڈ شامل ہیں، تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا، جس کے بعد احتساب عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو پارک لین ریفرنس میں ملزمان کے خلاف شہادتیں پیش کرنے کی ہدایت کی۔
آصف علی زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کے وقت موقف اپنایا کہ انہوں نے پاکستان کو اٹھارویں ترمیم دی، اس لیے یہ مقدمات بنائے جا رہے ہیں، مجھ پر دباؤ ڈالنے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے، عدالتوں کو غیر جانبدار رہ کر فیصلہ دینا چاہیے، جج احتساب عدالت کا کہنا تھا کہ اسی لیے ہم نے یکم ستمبر کو گواہوں کو بلایا ہے ، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔عدالت نے پارک لین ریفرنس کی سماعت یکم ستمبر تک ملتوی کردی
Comments are closed.