وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے اور افغانستان میں ہونے والے ان مذاکرات میں افغان طالبان سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا سمیت مغربی طاقتیں افغانستان میں اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کے بہانے گھڑنے اور طالبان حکومت کے ساتھ تعاون کرنے والوں پر پابندیوں کی دھمکیاں دینے میں مصروف ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسے’’مذاکرات‘‘ ہوتے رہے ہیں اور صرف پاکستان نہیں بلکہ مختلف ممالک میں بات چیت کے ذریعے مسلح گروہوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے کوششیں کی جاتی رہی ہیں، تقریباً ایک ماہ سے یہ ’مذاکرات‘ جاری تھے، لیکن خطے کی بدلتی صورت حال کے تناظر اور موجودہ حالات میں وزیراعظم عمران خان کے اس بیان سے پاکستان پر انگلیاں اٹھانے والوں کو موقع مل گیا ہے، یہ بیان نہ صرف پاکستان کا بازو مروڑنے کیلئے بے تاب عالمی طاقتوں کو فائدہ دے گا بلکہ پاکستان سے ڈومور کے مطالبات دہرائے جائیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں شامل مختلف عسکریت پسند گروہوں کے قائدین، کمانڈرز اور جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تقریباً 6 ہزار کے قریب ہے، جن میں 300 کے قریب ایسے دہشت گرد ہیں جو کسی قسم کے مذاکرات کے لئے ہرگز تیار نہیں، ماضی میں بھی عسکریت پسندوں کو عام معافی دینے سے متعلق صدرمملکت اور وزیر خارجہ کی تجاویز پر کالعدم ٹی ٹی پی کے اسی حلقے نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ عام معافی کا فیصلہ وہ (کالعدم تحریک طالبان پاکستان) کرے گی۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سمیت بعض حکومتی عہدیدار وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی وضاحتیں پیش کرنے میں مصروف ہیں، بات چیت اور مذاکرات کے حق میں دلائل دینے والے وفاقی وزراء یہ نہیں بتائیں گے کہ تحریک انصاف کی حکومت پارلیمنٹ کے اندر حزب اختلاف کے ساتھ بات چیت کیوں کرنا گوارا نہیں کرتی؟
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ ’ہمیں گُڈ اور بیڈ کا پتہ ہے‘۔۔۔ اے پی ایس کے بچوں کے قاتلوں کا علم ہے اور ان کا کیس الگ ہے، لیکن باخبر وفاقی وزیر داخلہ یہ نہیں بتائیں گے کہ سانحہ اے پی ایس کے 7سال بعد بھی احسان اللہ احسان سمیت سفاک حملے میں ملوث کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈرز انصاف کے کٹہرے میں کیوں نہیں لائے گئے؟
ناقدین کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کا آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم بچوں کی قاتل کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو مذاکرات کے ذریعے معافی دینے کی باتیں سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے 100 سے زائد معصوم بچوں کے والدین کے زخموں پر نمک پاشی ہے، کلاس رومز میں پڑھتے 8 سے 18 سال کے بچوں کو بے دردی سے قتل کرنے والے درندہ صفت اور انسانیت سے عاری یہ دہشت کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں۔
کیا یہ حکومتی اقدام کالعدم ٹی ٹی پی کےحملوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں قربان کرنے والے سیکورٹی فورسز کے ہزاروں افسروں اور جوانوں کے خون سے غداری کے مترادف نہیں؟ کیا ایسے سفاک دہشت گردوں سے بات چیت کی جا سکتی ہے جنہوں نے کئی ماؤں کے لخت جگر، والدین سے ان کے سہارے، بہنوں سے بھائی، خواتین سے سہاگ چھین لیے، جنہوں نے معصوم بچوں کو باپ کی شفقت سے محروم کردیا، حکومت شہداء کے بچوں کو کیسے قائل کرے گی جو آج بھی اپنے والد کی واپسی کیلئے راہ دیکھ رہے ہیں۔
Comments are closed.