بنجوسہ کے راون

تحریر:مقصود منتظر

ہنی بلییومی (مجھ پر یقین کرو) میرامطلب ہرگز یہ جھیل نہیں تھا۔۔ اگر میں یہاں پہلا آیا ہوا ہوتا تو
ٹرسٹ می،میں کبھی تمہاری گہری اور سندر آنکھوں کو جھیل سے تشبیہ نہ دیتا
میں ڈر رہا ہوں تمہاری نشیلی آنکھوں سے
کہ لوٹ لیں نہ کسی روز کچھ پلا کے مجھے

جلیل مانگ پوری کا یہ شعر پڑھ کرساحر نے مسکا لگانے کی کوشش کرتے ہوئے صبا کوغصہ تھوکنے کا کہا۔ مگر صباآگ بگولا ہوچکی تھی ۔ وہ گائینی وارڈ کی سسٹر کا روپ دھار چکی تھی۔ وہ چیخ چیخ کر، جو منہ میں آرہا تھا،زور زور سے بک رہی تھی ۔ قینچی کی طرح زبان چلا رہی تھی۔۔۔
چل جھوٹے،آج خالہ کی بات پر پورا یقین آگیا کہ مرد سارے جھوٹے ہوتے ہیں۔ ابھی تو شادی کو جمعہ جمعہ سات دن نہیں ہوئے اور آپ کی جھوٹی تعریفوں کے پول کھلنے لگے۔
نانا۔۔ ڈارلنگ۔ ٹرسٹ می۔ میں نے جھوٹ نہیں بولا۔۔

ساحر نے صبا کی تھوڑی کو ہاتھ لگاکر نرمی سے اس کے جھکے اور اداس چہرے کو تھوڑا اوپر اٹھانے کی کوشش کی۔ جب صبا نے سر کو جھٹکا دیا تو ساحر نے نئی نویلی دلہن کی گہری اور شرابی آنکھوں پر یہ اشعار نچھاور کیے۔۔۔
گلاب آنکھیں، شراب آنکھیں
یہی تو ہیں، لاجواب آنکھیں
اِنہیں میں اُلفت، اِنہی میں نفرت
ثواب آنکھیں، عذاب آنکھیں

بے بی ، اٹ از اینف ناو( بس بہت  ہو گیا) کشتی پر بیٹھی اینگری گرل نے ہاتھ سے پانی اچھالتے ہوئے کہا ۔۔۔ اللہ کسی چڑیل کو بھی ایسی آنکھیں نہ دے۔ یہ گندہ پانی ۔ اس کا رنگ تو دیکھو ، اس کی بدبو تو سونگو۔ شی شی ۔ صبا ناک چڑھاتے ہوئے سوالیہ انداز میں بولی ۔ لگتا ہے کہ یہ کسی جھیل کا پانی ہے۔
بالکل بھی نہیں ۔ میں بھی آپ کی بات سے سہمت ہوں ۔ بیوی کے غصے سے سہمے ساحر نے اثبات میں سر بھی ہلا دیا۔
صبا میری جان ، میں کسی خوبصورت جھیل کا سوچ کر تہماری آنکھوں کی تعریف کرتا تھا۔ لیکن یہ بنجوسہ جھیل ۔۔۔۔ اُف مائی گارڈ ۔۔۔ اٹ از ٹو ڈرٹی (یہ تو بہت گندی ہے ) یہ کہتے ہوئے ساحر نے بوٹ والے کو کشتی کنارہ لگانے کا اشارہ کیا۔

میں اور کیمرہ مین ایم ڈی مغل جھیل کے کنارے پرشوٹنگ کے دوران ہنی مون پرآئے جوڑے کی تو تکرار کیمرے کی آنکھ سے دیکھ رہے تھے۔ صبا،سر کو جھٹکا دیکراور زلفوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے آہں کرکے بوٹ سے اتری اور ناک پر ہاتھ رکھ کر تیزی سے گاڑی کی طرف بھاگ نکلی ۔

یہ منظر ہے راولاکوٹ میں واقع بنجوبہ جھیل کا۔۔ جس کی تعریف کرتے راولاکوٹ سمیت پورے آزادکشمیر کے لوگ تھکتے نہیں ہیں۔ چاروں اطراف میں جنگل اور تین اطراف سے پہاڑیوں میں موجود یہ جھیل کسی زمانے میں خوبصورت ضرور ہوتی تھی. عاشق اپنی محبوبہ کی آنکھوں کو اس جھیل سے تشبہ دیتے تھے.. مگراب نہیں۔اب اس کا پانی شاید جانور بھی پینا گوارا نہیں کریں گے۔ سبز پہاڑوں اور زلف دار درختوں کے بیج میں کسی قیمتی انگوٹھی میں موتی کی طرح اس جھیل کے حسن کوبے دردی سے گہنا دیا گیا ۔ جھیل کے کناروں پر چند پیسوں کیلئے بے ڈھنگ کھوکھوں کی بستی آباد ہے۔ اس کے ماتھے پر کلنک کی طرح وہ سرکاری ریسٹ ہاوس قائم ہے جوصاحب اقتدار ،بیورو کریسی اور دیگر بااثر سرکاری بابے اپنے اور اپنے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کے قیام اور طعام اور دیگر عیاشیوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

بنجوسہ جھیل ایک باپردہ اور پوتر جھیل تھی۔اس نے انسان حتیٰ کہ چشم فلک کی نظر سے بچنے کیلئے فطرت کی خوبصورت چادر اوڑھ رکھی تھی مگربے درد سماج اسے اپنی آمدن اور عیاشی کیلئے نیم برہنہ کرچکا ہے۔ جھیل کے ماحول کا خیال رکھے بغیر چاروں اطراف میں لگے خوبصورت درختوں کو کاٹا گیا۔ اس کے ماتھے پر ریسٹ ہاوسز تعمیر کیے گئےاور اس کے لبوں پر بدصورت کھوکھے لگائے گئے ۔۔۔ رہی سہی کسررنگ برنگی بوٹس نے نکالی ۔۔ جھیل کی دلکشی اور خوبصورت کو چھینا گیا ۔۔ اس کے صاف پانی کو زہریلی بنادیا گیا ۔ سارے ریسٹ ہاوسز کے فضلے کا مسکن اب یہی جھیل ہے۔۔۔

کنارے پر جھیل کا نظارہ کرتے ہوئے اس چھوٹی سی آب گاہ کی ستم ظریفی دیکھ کر ہر ماحول دوست انسان کا دل دکھتا ہے۔ اپنی بے بسی پر ماتم کرتی جھیل کے آنسوں دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔ اس کے سینے میں درد کو محوس کرتے ہیں۔ یہ بے زبان آب گاہ زبان والوں سے چیخ چیخ کر پوچھ رہی ہے کہ بنجوسہ کا راون کون ہے؟ کیوں نہ اس راکھشس کو اصلی راون جیسی سزا دی جائے ۔

جس طرح راون نے سادھو کے روپ میں پاک سیتا کی عصمت اور آبرو کو لہو لہان کیا ۔ بنجوسہ کے راون بھی اپنے بن کر میری پاکیزگی کو پلید کررہے ہیں ۔ خدارا میری چادر کو چاک نہ کرو ۔۔ میں مزید برہنہ ہوئی تو اپنا وجود کھو دوں گی ۔۔ میں یہ اتیا چار مزید برداشت نہیں کرسکتی ۔
یاد رہے راون سناتن دھرم کا ولن ہے. یہ راکشس اس دھرم کے ہیرو رام کا قریبی اور قابل اعتماد ساتھی تھا ۔ تاریخ رامائن کے مطابق جب رام چندر چودہ سال کےلیے بن ماس گیا تو اس دوران عمل اور کردار میں رام سے بھی زیادہ بھلے روان کا اس جنگل سے گزر ہوا جس میں سیتا اور اس کے بھائی لکشمن نے عارضی پڑاؤ ڈالا تھا۔ روان نے جب سیتا کو دیکھا تواس کی نیت بدل گئی ۔ کچھ دن ٹھہر کر بیس بدل کر آیا اور سیتا کو اٹھا کرلے گیا۔
رام نے بندروں کے ذریعے لنکا پر حملہ کروا کر سیتا کو چھڑوا لیا ۔۔۔ اس وقت رام نے یہ جملہ کہا کہ، گر تم نے اپنے ہی روپ آکر سیتاکو لے جاتا تو تمہیں معاف کردیا جاتا لیکن یہ جو بیس بدل کر تم نے پاپ کیا۔ یہ ناقابلمعافی کیا۔۔اس کی پوری سزا ملے گی۔ راون کو آج بھی ولن سمجھا جاتا ہے۔۔

بنجوسہ کو راونوں سے بچانے کیلئے ماحول دوست انسانوں کو آگے آنا ہوگا ورنہ جھیل بچے گی نہ ہی پھر یہ کاروبار ۔۔۔ انتظامیہ اور حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ایسی سیرگاہوں اور خوبصورت مقامات کےآس پاس ایک کلو میٹر کی ریڈیس میں تعمیرات پر پابندی عائد کرے ۔ یورپ میں جس طرح ایسے مقامات کو اپنی اصل میں رکھا جاتا اسی طرح یہاں بھی ہونا چاہیے تاکہ سیاحت کے ساتھ ساتھ ماحول اور نیچر بھی محفوظ رہے، جھیلیں نہ صرف سیاحوں کی سیر گاہیں ہیں بلکہ شعراء حضرات کا بھی ایک اثاثہ ہیں، خدارا نرم مزاج اور بازوق شعراء کا ہی خیال رکھو، ورنہ ساحر کی طرح ہر کسی کو صفائیاں پیش کرنے پڑیں گی اور ہر صباکے ہنی مون کا مزہ جھیلوں پر کرکرا ہوتا رہے گا۔

Comments are closed.