روس کبھی یوکرین فتح نہیں کرسکتا، ماسکو پرحملے کی منصوبہ بندی کا الزام بھی مسترد

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی ممالک روس پر حملے یا اسے تباہ کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے، پیوٹن نے خود جنگ کا انتخاب کیا، روس کبھی بھی یوکرین کو فتح نہیں کر سکتا۔

پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کے شاہی محل میں کیے گئے خطاب کے دوران صدر بائیڈن نے مغربی ممالک پر روس کے خلاف حملے کی منصوبہ بندی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ واشنگٹن اور اس کے  اتحادی روس پر قبضہ یا اسے تباہ نہیں کرنا چاہتے، مغربی ممالک روس پر حملے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے تھے، اس جنگ کی کبھی بھی ضرورت نہیں تھی لیکن صدر پیوٹن نے اس جنگ کا انتخاب کیا۔ انہوں نے یوکرین کے ساتھ غیرمتزلزل حمایت اور تعاون جاری رکھنے جب کہ نیٹو اتحادی افواج کے مشرقی حصے کو مزید فعال اور طاقتور بنانے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔

امریکی صدر نے روس کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک سال سے جاری اس جنگ کے دوران کسی کو بھی ہمارے اتحاد کے حوالے سے شک میں نہیں رہنا چاہیے، لیکن اسے اب بھی ہمارے عزم، مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہنے اور یوکرین کی مسلسل حمایت کے حوالے سے شکوک ہیں، انہیں شک ہے کہ نیٹو متحد نہیں رہ سکتا۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم یوکرین کا ساتھ چھوڑ دیں گے یا نیٹو تقسیم ہو جائے گا۔

صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ آمریت کی بھوک مٹائی نہیں جا سکتی بلکہ اس کا ہر صورت مقابلہ کرنا ہوتا ہے، آمروں کو ہر صورت ”نہیں” میں جواب ملنا چاہیے۔۔۔ نہیں تم میرا وطن، میری آزادی اور میرا مستقبل نہیں چھین سکتے۔ کوئی بھی آمر (ڈکٹیٹر) عوام کے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کر سکتا، ظلم کبھی آزادی کی دیوار پھلانگ نہیں سکتا اور روس کبھی بھی یوکرین کا فاتح نہیں بن سکتا۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ایک سال پہلے دنیا سوچ رہی تھی کہ یوکرین کا زوال اور شکست یقینی ہے لیکن میں آج بتا رہا ہوں کہ کیف (یوکرینی دارالحکومت)  آج فخریہ انداز میں مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے اور سب سے اہم یوکرین آزاد ہے۔ روسی صدر نے جب اپنے ٹینکوں کو چڑھائی کا حکم دیا تو وہ اس غلط فہمی میں تھے کہ ہم پلٹ جائیں گے لیکن وہ غلط ثابت ہوئے۔

واضح رہے کہ اب تک نیٹو اتحادی اور معاون ممالک یوکرین کو اربوں ڈالر مالیت کے بھاری جنگی ہتھیار، گولہ بارود اور جدید ٹینکس فراہم کر چکا ہے جب کہ بعض ممالک لڑاکا طیاروں اور میزائل فراہمی کی یوکرین کی درخواست پر بھی غور کر رہے ہیں۔

Comments are closed.