اسلام آباد: وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد پراڈ شیٹ کمیشن کی رپورٹ پبلک کر دی گئی ۔ ر پورٹ میں 15 لاکھ ڈالر کی ٖ غلط ادائیگیوں کا انکشاف کیا گیا اور اس کا ذمہ دار معروف قانون دان احمر بلال صوفی سمیت پانچ شخصیات کو قرار دیا گیاہے ۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ یہ حقیقت ہے کہ سیاسی کرپٹ لوگوں کی فہرست براڈ شیٹ کو دی گئی لیکن فہرست کی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی نواز شریف اور ان کے خاندان کو رات کے اندھیرے میں بیرون ملک بھجوا دیا گیا۔۔
احمر بلال صوفی،سابق ہائی کمشنر عبد الباسط ،، لندن ہائی کمیشن میں ڈائیریکٹر آڈٹ اینڈ اکاؤنٹ شاہد علی بیگ ،سابق جوائنٹ سیکرٹری قانون غلام رسول اور براڈ شیٹ ڈیسک کے افسر حسن ثاقب شیخ ذمہ دار قرار دیاگیا ہے ۔سابق سفیر شریف الدین پیزادہ کے براڈ شیٹ کے پے رول پرہونے کا بھی انکشاف ہواہے
جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں قائم براڈ شیٹ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ نیب کےسوا تمام متعلقہ حکومتی اداروں نےکمیشن سےتعاون نہیں کیا۔بیوروکریسی نے ریکارڈ چھپانے اور گم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، براڈشیٹ کاایسٹ ریکوری معاہدہ حکومتی اداروں کی بین الاقوامی قانون کونہ سمجھنےکامنہ بولتاثبوت ہے۔ براڈ شیٹ کیساتھ معائدہ منسوخ کرنا ناگزیر تھا،یہ حقیقت ہے کہ سیاسی کرپٹ لوگوں کی فہرست براڈ شیٹ کو دی گئی لیکن فہرست کی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی نواز شریف اور ان کے خاندان کو رات کے اندھیرے میں بیرون ملک بھجوا دیا گیا۔
کمیشن نے کوتاہی کے مرتکب افراد کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ احمر بلال صوفی نے تاثر دیا کہ آئی اے آر جیسی سیٹلمنٹ براڈشیٹ سے بھی ممکن ہے۔انہوں نے براڈشیٹ کے نمائندے جیری جیمز سے رابطہ بھی کیا۔براڈشیٹ کو 15 لاکھ ڈالر ادائیگی اخراجات کی تفصیلات فراہم کرنے سے مشروط تھی۔براڈشیٹ کیساتھ سیٹلمنٹ معاہدہ نیب نے جائزے کیلئے وزارت قانون کو بھجوایا۔معاہدے میں جیری جیمز کے براڈشیٹ کے نمائندہ ہونے کی دستاویز شامل نہیں تھی۔حکومت اور نیب کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ادائیگی کا معاہدہ کس کیساتھ ہو رہا ہےکیونکہ احمر بلال صوفی کے ڈرافٹ کیے گئے معاہدے میں نہیں لکھا تھا کہ دوسرا فریق کون ہے۔چیئرمین نیب کو معاہدہ وزارت قانون سے منظور کرانے کی ہدایت پر بھی دھوکا دیا گیا۔لندن میں ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھی جیری جیمز سے اسکی قانونی حیثیت دریافت نہیں کی۔
رپورٹ میں مزید ہاگیاہے کہ ادائیگی کی منظوی براڈشیٹ ازلے مین کیلئے ہوئی لیکن رقم براڈشیٹ کولارڈو کو دی گئی اور اس کی کوئی وضاحت بھی پیش نہیں کی گئی۔رقم کی پہلی قسط براڈشیٹ جبرالٹر کو ملی جس کا وجود ہی نہیں تھا۔براڈشیٹ جبرالٹر کا ذکر احمر بلال صوفی کے ڈرافٹ کیے گئے معاہدے میں تین مرتبہ ہوا جبکہ موجودہ سیکرٹری قانون نے کہا کہ ادائیگی سے متعلق فائل چوری ہوگئی ہے۔اٹارنی جنرل آفس، وزارت خارجہ اور خزانہ سے بھی ریکارڈ غائب تھا۔
رپورٹ کے مطابق کاووے موسوی سزا یافتہ شخص ہے لیکن موسوی کے الزامات کی تحقیقات کمیشن کے ٹی او آرز میں شامل نہیں۔حکومت چاہے تو کاووے موسوی کے الزامات کی تحقیقات کروا سکتی ہے۔کمیشن نےطارق فواداورکاوےموسوی کابیان رکارڈکرنامناسب نہیں سمجھا۔ کئی محکموں حتی کہ دوسرے براعظم تک ریکارڈ غائب کیا گیا۔براڈشیٹ کا ریکارڈتقریباً ہر جگہ بشمول پاکستان لندن مشن کےمِسنگ تھا۔حکومتی اداروں کے عدم تعاون پر موہنداس گاندھی کو فخر محسوس ہوا ہوگا۔صرف نیب نے کمیشن سے تعاون کیا ۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ سوئس کیسز کا ریکارڈ 12 ڈپلومیٹک بیگز میں نیب کے پاس موجود ہے۔نیب جائزہ لے کہ ریکارڈ اس کے کام آ سکتا ہے یا نہیں۔کمیشن کے سربراہ نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ مارگلہ کے دامن میں رپورٹ لکھتے وقت گیدڑوں کی موجودگی بھی ہوتی تھی۔گیدڑ بھبھبکیاں مجھے کام کرنے سے نہیں روک سکتیں۔ حکومتی سسٹم کی وجہ سے ملک کی بدنامی اور مالی نقصان بھی ہوا۔سیاسی دباو عام طور پر حکام سے غلط فیصلے کرانے کا باعث بنتا ہے۔
Comments are closed.