اسلام آباد: حالیہ سیلاب نے پاکستان کے ایک بڑے حصے کو ڈبودیا۔3 کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے۔ یہ محض ابتدائے عشق ہے۔آگے اس سے بڑے سیلاب اور زلزلے متوقع ہیں۔ قدرتی آفات جیسے سیلاب، زلزلے اور گرمی کی لوبلا امتیاز سرحد، رنگ ونسل سب کو متاثرکرتی ہے۔ ماضی قریب میں افغانستان، بھارت، پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش نے بڑے پیمانے پر تباہی، یعنی زلزلے، سیلاب اور خشک سالی کا سامنا کیا۔ سائنسی تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک خاص طور پر پاکستان اور اس کے ملحقہ علاقے زبردست موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔
قدرت نے جنوبی ایشیاء کو تقریباً 15000 گلیشیئرز سے نوازا ہے۔ غیر پولر ریجن میں واقع ہونے کے باوجود صرف پاکستان میں 7253 معلوم گلیشیئر پائے جاتے ہیں۔ 47 میل لمبا اور سطح سمندر سے 22000 فٹ کی بلندی پر واقع سیاچن گلیشیئرصاف پانی کی فراہمی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ تاہم گلوبل وارمنگ اور مسلسل انسانی مداخلت کی وجہ سے یہ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہا ہے،جس کی وجہ سے پاکستان اور اس کے گرد ونواح کے علاقوں میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔
پاکستانی اور بھارتی افواج کے تقریباً 5000 فوجی سیاچن گلیشیئر پر تعینات ہیں۔ دونوں ممالک کے تقریباً 3000 فوجی ہمیشہ گلیشیئر پر موجود رہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اپریل 1984ء میں سیاچن پر بھارت کے قبضے کے بعد سے اب تک دونوں ممالک کے تقریباً 2700 فوجی سیاچن پر جان بحق ہو چکے ہیں۔ بعض اندازوں کے مطابق سیاچن میں 97 فیصد ہلاکتیں منجمد درجہ حرارت، فوجیوں کے برفانی غاروں میں گرنے یا بہہ جانے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر فوجی معرکوں کے بجائے برفانی تودے گرنے سے 2012 میں محض ایک واقعے میں پاک فوج کے 140 جوان منوں برف اور چٹان کے نیچے زندہ دب کر شہید ہوگئے تھے۔بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ 36 سال سے جاری تنازع کے دوران برفانی تودے گرنے کی وجہ سے تقریباً 1000 بھارتی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
بوفورس ہووٹزر، راکٹ لانچر، مشین گن، آرٹلری گن اور حتیٰ کہ کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل جیسے بھاری ہتھیار گزشتہ 38 سالوں سے سیاچن پر استعمال ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں بڑے ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ہتھیاروں کی سپلائی کی جاتی ہے۔ گلیشیئرز کی چوٹی تک کوئی رابطہ سڑک نہیں ہے۔ نتیجتاً گلیشیئر پر کچرا پھینکنا پڑتا ہے۔ ردی کی ٹوکری کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں ۔ سیاچن میں خدمات انجام دینے والوں نے اعتراف کیا کہ کھانے کے برتن، پھلوں اور جوس کے پیکٹ، طبی آلات، استعمال شدہ چھوٹے ہتھیار اورگولہ بارود کے ڈھیر برف پر بکھرے نظر آتے ہیں۔
کولمبیا سکول آف کلائمیٹ کی لیزا کو لکھتی ہیں کہ ہر روز تقریباً 2000 پاؤنڈ انسانی فضلہ گلیشیئر کے دروں میں پھینکا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ بھاری توپ خانے کے ساتھ سیسے جیسی زہریلی دھاتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔اس فضلے سے میدانی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے پانی آلودہ ہوجاتا ہے جو ان کی صحت کو متاثر کرتاہے۔ اسی طرح سمندری یا دریائی حیات کی بقا بھی خطرہ میں پڑجاتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے تقریباً اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ سیاچن پر مسلسل فوجی موجودگی گلیشیئرکو جلد ہی پگھلادے گی۔حالیہ برسوں میں گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر نے موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو بھگتا ہے۔ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے کئی نئی جھیلیں نمودار ہوئی ہیں۔ بادل پھٹنے کی صورت میں یہ جھیلیں بڑے پیمانے پر سیلاب کا باعث بن سکتی ہیں۔اس لیے سائنس دانوں کی طرف سے اصرار کے ساتھ مشورہ دیا گیا ہے کہ سیاچن گلیشیئر پر انسانی سرگرمیاں اب بند کر دی جائیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات میں پائی جانے والی سردمہری کی بدولت کسی مثبت پیش رفت کی امید نہیں کی جا سکتی۔لیکن جنوبی ایشیا کے تقریباً 2 ارب شہریوں کے مفاد میں ماحول کو بہتر بنانے اور عام لوگوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے دنوں ممالک کوئی ایسا میکنزم تشکیل دینا چاہیے جو ماحولیات کے تیزی سے انحطاط اور خطے کے ممالک پر اس کے اثرات کی نگرانی کا ذمہ دار ہو۔ یہ کام سارک ممالک کی تنظیم سے بھی لیاجاسکتاہے جو بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے لگ بھگ غیر فعال ہوچکی ہے۔2021 میں دونوں ممالک کے درمیان کنٹرول لائن پر سنہ 2003ء میں ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے کی ازسرنو پاسداری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔جس سے لائن آف کنٹرول پر جاری آتش وآہن کا کھیل رکا۔نیشنل سیکورٹی ڈویژن کے اس سیمینار میں یہ طالب علم بھی شریک تھا، جس میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس سال مارچ میں بھارت کو کشمیر سمیت تمام تنازعات کے پرامن حل کی دعوت دی اور ماضی کو دفن کرکے مستقبل میں جھکانکنے کا مشورہ دیا۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں سیاچن کا مسئلہ کسی بھی سطح پر زیر بحث نہیں آیاحتیٰ کہ جون 2012ء کے بعد سے اس ایشو پر کوئی باضابطہ بات چیت بھی نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود سیاچن کو ان مسائل میں سے ایک سمجھا جاتاہے جن کا آسانی کے ساتھ حل کیاجاسکتاہے۔ موسمیاتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی اور تباہی کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت اور پاکستان دونوں کو سیاچن گلیشیئر سے فوجی انخلاء اور اسے غیر فوجی علاقہ بنانے پر بات چیت دوبارہ شروع کرنی چاہیے۔ اس تناظر میں مختلف اوقات میں کئی ایک تجاویز زیر بحث آتی رہی ہیں۔پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت شملہ معاہدے سے قبل یعنی 1972ء کی پوزیشنوں پراپنی فوج لے جائے۔ اس کے برعکس بھارت کسی معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل موجودہ زمینی پوزیشنوں کی ”تصدیق” کرانے پر اصرار کرتاہے۔ اگرچہ سیکرٹری دفاع کی سطح پر دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کے 13 دور ہوئے۔
1998ء میں دونوں ممالک فوجی انخلاء کے لیے تیار ہوگئے تھے۔رسمی اعلان باقی تھا کہ بھارتی فوج نے اس معاہدے کو سبوتاژکردیا۔اس کے بعد مذاکرات اور خواہش کے باوجود بھارت اورپاکستان سیاچن سے فوجی انخلا میں ناکام رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں سے کوئی بھی اپنے موقف میں لچک دکھانے کو تیار نہیں ۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ ایک بار سیاچن کو ”امن کے پہاڑ” میں تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔ یونیسکو سیاچن کو عالمی ثقافتی ورثہ میں تبدیل کر نے کا متمنی ہے۔یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ ابتدائی طور پر جزوی فوجی انخلاء کیا جائے اور بتدریج مکمل فوجی انخلا کا مرحلہ طے کیا جائے۔ دنوں ممالک کے شکوک وشبہات یا بداعتمادی کے تدارک کے لیے فضائی نگرانی کا طریقہ کار بھی طے کیا جا سکتا ہے تاکہ کوئی بھی فریق معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرسکے۔
قدرتی آفات بالخصوص موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ تنہا کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں۔ موسیمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے مسائل کو حل کرنے کے لیے علاقائی تعاون ناگیزیر ہوچکا ہے۔ سیاچن کے تنازعہ کا حل اگرچہ قدرتی آفات سے بچنے کی خاطر کیا جانا چاہیے لیکن یہ دیگر مسائل کے پرامن حل کا بھی راستہ ہموار کرسکتاہے۔
Comments are closed.