کرنسی ڈگمگما رہی ہے،پی ٹی آئی پارلیمنٹ آئے،مل کرکام کریں، چیف جسٹس
نیب قانون سازی کے وقت پی ٹی آئی کہاں تھی،اتنی بڑی جماعت اسمبلی میں نہیں تھی،پھرکہتے ہیں قانون خلاف قانون بن گئے،پارلیمان کےاختیارات میں مداخلت بہت سوچ سمجھ کرہی کی جا سکتی ہے،آئی ایم ایف سے سٹاف لیول پبلک میں تسلیم نہیں کیا جا رہا،ڈالر کا ریٹ بڑھ رہا ہے،ملکی معیشت کی حالت خراب ہے،کبھی کبھی مفاد عامہ اورملک کی خاطرذاتی ترجیحات پرسمجھوتہ کرنا پڑتا ہے:ریمارکس،سپریم کورٹ نے نیب ترمیم کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر اٹارنی جنرل کونوٹس جاری کردیا
اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نیب ترمیم کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر اٹارنی جنرل کونوٹس جاری کردیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ نیب قانون سازی کے وقت پی ٹی آئی کہاں تھی۔اتنی بڑی جماعت اسمبلی میں نہیں تھی۔پھرکہتے ہیں قانون خلاف قانون بن گئے۔پارلیمان کےاختیارات میں مداخلت بہت سوچ سمجھ کرہی کی جا سکتی ہے۔آئی ایم ایف سے سٹاف لیول پبلک میں تسلیم نہیں کیا جا رہا۔کرنسی روزبروز ڈگمگا رہی ہے۔ڈالر کا ریٹ بڑھ رہا ہے۔ملکی معیشت کی حالت خراب ہے۔سب کومل کرملک کیلئے کام کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے عمران خان کی درخواسست پر سماعت کی۔عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کے متصادم اورآئین کے برخلاف ہیں۔عدالت نے اقوام متحدہ کے اینٹی کرپشن کنونشن کوبھی مدنظررکھنا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا قانون سازوں کوان کا استحقاق استعمال کرنے نہیں دینا چاہیے؟۔کل اگرحکومت نیب قانون کوختم کردیتی ہےتوکیا اس کوبھی چیلنج کریں گے۔خواجہ حارث بولے جی بالکل چیلنج کیا جا سکتا ہے۔۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا یہ قانون سازوں کا کام نہیں تھا کہ نیب قانون بنائے جائیں؟۔عدالتوں نے متعدد بارکہا کہ نیب قوانین بنائے جائیں۔یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ترامیم پارلیمان نے کی ہیں وکیل نے کہا نیب قانون میں موجودہ ترامیم کرکے بنیادی حقوق سلب کیے پارلیمان بھی آئین کے ماتحت ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ سرکارکا کام آگے بڑھنا چاہیے اورفیصلہ سازی ہونی چاہیے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ فیصلہ سازاس لیے ڈرتے تھے کہ نیب نا پکڑلے۔نیب قانون نے ہمیں پیچھے بھی دھکیلا ہے ہرحکومت اپنی اپوزیشن کیخلاف نیب استعمال کرتی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ نیب ترامیم میں کرپشن اورکرپٹ پریکٹس کی اجازت نہیں دی گئی۔نیب قانون کا تعلق صرف پبلک آفس ہولڈرزسے نہیں ہے مخصوص فرد کیلئے بنے قانون کوعدالت کالعدم کرسکتی ہے۔جوترامیم بنیادی حقوق کیخلاف نہیں انہیں الگ رکھنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی کو روسٹرم پر بلاتے ہوئے پوچھاکہ نیب قانون سازی کے وقت پی ٹی آئی کہاں تھی اسمبلی کوترک کردیا۔ملک وآئین کی خاطرسوچیں، اتنی بڑی جماعت اسمبلی میں نہیں تھی پھرکہتے ہیں قانون خلاف قانون بن گئے۔۔کیا پارلیمنٹ اورعدلیہ کواپنا اپنا کام نہیں کرنا چاہیے۔پی ٹی آئی پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت کرے پارلیمنٹ کے اندربحث ہونی چاہیے۔۔آئندہ سماعت پرشاہ محمود قریشی بھی آئیں دوسرے طرف سےبھی لوگ بلائیں گے۔
چیف جسٹس نے مزید کہاکہ جمہوریت کی خاطرپارلیمنٹ کوکام کرتے رہنا چاہیے۔پارلیمنٹ کا کوئی بدل نہیں ہے۔۔پارلیمنٹ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔کبھی کبھی مفاد عامہ اورملک کی خاطرذاتی ترجیحات پرسمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔کیا آپ کی جماعت نےکوئی ایسا لائحہ عمل بنایا کہ ملک کومشکل حالات سے نکالا جاسکے۔چاہتے ہیں یہ معاملہ واپس پارلیمنٹ جائے،عدالت نے اٹارنی جنرل اٹارنی جنرل کونوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 29 جولائی تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.