اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں حکومتی اتحاد کی فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا مسترد کر دی۔
وقفہ سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز اور ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے وکلا کو دلائل دینے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ابھی فل کورٹ کے معاملے پر فیصلہ نہیں کررہے۔ ابھی اس کیس کومزید سننے کے بعد فیصلہ کرینگے۔ مسلم لیگ ق اورپیپلزپارٹی کے وکلاء کو بھی بعد میں سنیں گے۔وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ہمیں تو آج فل کورٹ کی ہدایات تھی، مجھے اپنے موکل سے ہدایات لینے کا وقت دیا جائے۔ وکیل منصور اعوان نے کہا کہ مجھے بھی حمزہ شہباز سے ہدایات لینے سے وقت دیا جائے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مسلم لیگ اور پیلپلز پارٹی فل کورٹ چاہتی ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس نے کہا ہے ابھی ہم مزید فریقین کوسننا چاہتے ہیں، آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ کےکہنے پرابھی فل کورٹ بنا دیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ میرٹس پر کیس سن لیتے ہیں۔ طوکلا کے دلائل کے بعد فل کورٹ کا فیصلہ کریں گے۔میریٹس پربات کریں پھرفل کورٹ کا فیصلہ کریںگے۔ فل کورٹ بنانے کیلیے مزید قانونی وضاحت کی ضرورت ہے۔
فاروق ایچ نائیک کے دلائل پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے خیال سے تو اج بھی ماحول گرم نہیں۔ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا تھا انہیں وقفے کے دوران پڑھا ہے۔ آپ وزیرقانون، پارلیمان کے رکن اور بار کے صدر بھی رہے ہیں۔ عہدہ سنبھالا تو 54 ہزار کیسز زیر التوا تھے آج 51 ہزار تک آ گئے، چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش ہے کہ چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے کیسز 50 ہزار سے کم ہوجائیں۔ کیا آپکو ماحول گرم لگ رہا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم پرسکون بیٹھے ہیں آپ دلائل دیں، فل کورٹ بن جائے تو دیگر مقدمات کو وقت نہیں مل سکتا، کیسز کے بوجھ میں کمی ڈسپلن کی وجہ سے آئی ہے، آج سوشل میڈیا حقائق کے بجائے تاثر کو دیکھتا ہے مگر ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے، اس کیس میں پارلیمانی پارٹی کی کوئی ہدایات نہیں۔ ہم نے دیکھنا ہے کی پارلیمانی پارٹی کے اختیار پر پارٹی سربراہ نے تجاویز کیا،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ دیکھنا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کو پارٹہ سربراہ چلاتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ کیس میں سوال بس یہ ہے کہ پارلیمانی پارٹی کی طرف سے کوئی ہدایات نہیں تھیں پارٹی سربراہ کی تھی،یہ کوئی بہت مشکل کیس نہیں ہے۔ ہمیں صرف مزید ٹھوس آئینی دلیل چاہیے کہ پارٹی ہیڈ کی ہدایات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے دور میں اٹھارویں ترمیم کر کے پارلیمانی پارٹی کو اختیار دیا۔ بورس جانسن کو پارلیمانی پارٹی نے ووٹ دیا، عدم اعتماد تک بات ہی نہیں گئی۔ ہم نے جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے،اگر پارلیمنٹ غیر قانونی اقدام کرے گا تو عدالت مداخلت کرے گی، اگر پارلیمنٹ غیر قانونی اقدام کرے گا تو عدالت مداخلت کرے گی۔ عدالت کو فل کورٹ بنانے کیلئے آئینی نکات درکار ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپکے ساتھی نے کہا تھا کہ پارٹی سربراہ آمر بن کر لوگوں کا کیرہیر تباہ کر دیتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم میں پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنا کر احسن قدم اٹھایا گیا۔ پارلیمان اور اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔ اس بات کا کوئی ڈر نہیں کہ سچ بولنے پر کوئی کیا کہے گا۔ اسمبلی کارروائی کو استثنی صرف کارروائی کے طریقہ کار پر ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ کیس میں سوال بس یہ ہے کہ پارلیمانی پارٹی کی طرف سے کوئی ہدایات نہیں تھیں پارٹی سربراہ کی تھی، یہ کوئی بہت مشکل کیس نہیں ہے، ہمیں صرف مزید ٹھوس آئینی دلیل چاہیے کہ پارٹی ہیڈ کی ہدایات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے دور میں اٹھارویں ترمیم کر کے پارلیمانی پارٹی کو اختیار دیا۔ بورس جانسن کو پارلیمانی پارٹی نے ووٹ دیا، عدم اعتماد تک بات ہی نہیں گئی۔ ہم نے جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمان کے مسئلے عدالت میں نہیں آنے چاہیے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ غیر قانونی اقدام کرے گا تو عدالت مداخلت کرے گی۔ عدالت کو فل کورٹ بنانے کیلئے آئینی نکات درکار ہیں۔ آپ کے ساتھی نے کہا تھا کہ پارٹی سربراہ آمر بن کر لوگوں کا کیرہیر تباہ کر دیتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم میں پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنا کر احسن قدم اٹھایا گیا،اس بات کا کوئی ڈر نہیں کہ سچ بولنے پر کوئی کیا کہے گا۔ اسمبلی کارروائی کو استثنی صرف کارروائی کے طریقہ کار پر ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آج آپ دوسری جانب کھڑے ہیں تو کہتے ہیں عدالت کا اختیار نہیں جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اب وقت اور حالات تبدیل ہو چکے ہیں، عدالت جمعرات تک کیس ملتوی کرے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بات دو دن کی نہیں ہے،عدالت نے تعین کرنا ہے وزیراعلی کا انتخاب درست تھا یا نہیں۔ معاملہ آئینی نہیں عدالتی فیصلے کی تشریح کا ہے۔ اگر تشریح غلط ہے تو اسکی درستگی کریں گے۔ کیا عدم اعتماد بھی پارلیمان کا اندرونی معاملہ نہیں تھا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس وقت تو آپ کہتے تھے عدالت کا مکمل اختیار ہے۔ ہم نے اسکو وانس فار آل فیصلہ کرنا ہے، معاملات کو لمبا کیوں کرنا چاہتے ہے۔ گذشتہ حکمنامہ میں لکھا ہے وزیر اعلی کا عہدہ مشکل میں ہے۔ چودھری شجاعت کے وکیل کے دلائل پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کیس کے حقائق پر جا رہے ہیں عدالت نے قانونی نقطے کا تعین کرنا ہے۔ عدالت نے صرف سمجھنے کیلئے سوال پوچھا تھا۔ سپیکر نے فیصلہ خط ملنے کے وقت پر نہیں بلکہ عدالتی حکم کی روشنی میں دیابعد ازاں عدالت نے حکومتی اتحاد کی فل کورٹ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سماعت صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی
اس سے پہلے دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پارٹی ہیڈ کی آمریت برقرار رہنے سے موروثی سیاست کا راستہ بند نہیں ہوگا، صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران یہ بات ذہن میں آئی کہ جمہوریت کو پارٹی ہیڈ کی آمریت سے پاک رکھنا ہے اور پارلیمانی جماعت کو خود مختار ہونا ہوگا۔ پارٹی ہیڈ کا کردار ضرور اہم ہے، مگر پارلیمانی معاملات میں پارلیمانی پارٹی کا بااختیار ہونا ضروری ہے۔
ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف چودھری پرویز الہی کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ سماعت کررہا ہے، وکلا کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود ہے۔
ایڈوکیٹ لطیف آفریدی اور سپریم کورٹ کے سابق صدر نے روسٹرم پر آکر کہا کہ یہاں بار کے کئی صدور موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی دیکھ رہے ہیں کئی صدور یہاں موجود ہیں، سابق صدر بار لطیف افریدی نے کہا کہ ملک میں کرائسز بڑھتے جارہے ہیں، پارلیمنٹ اور یہ عدالت ملکی نظام کا حصہ ہے،ہماری درخواست ہے کہ فل کورٹ بناکر سماعت کی جائے، ہم اس معاملے پر چیمبر میں ملنا چاھتے تھے۔
چیف جسس نے کہا کہ ہمارے چیمبر آپ کے لئے کھلے ہیں، یہ کیس ہمارے فیصلے سے متعلق ہے اور ہم اسے سننے کے لیے یہاں ہیں ، آپ اپنی نشست لیں ہم ان دونوں معاملات کو دیکھتے ہیں۔سپریم کورٹ بار اسیوسی ایشن کے صدر بار احسن بھون نے کہا کہ ہم عدالت کے ساتھ ہیں ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں، ہماری نظرثانی درخواستیں اپ کے پاس موجود ہیں ان کو سنا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چاھیں گے کہ فریقین ہماری معاونت کریں۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں بھی سابق صدر ہوں، پہلی بار دیکھ رہا ہوں کہ سارےسابق صدور آئے ہیں یہ ایک اچھا عمل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سارے صدور کیس کی گرویٹی کو بڑہانا چاہتے ہیں۔ کچھ پارٹیوں کی طرف سے فریق بننے کہ درخواستیں آئی ہیں ان کو نمبر نہیں لگایا جارہا ہے۔ جسٹس اعجازلا حسن نے کہا کہ ہم کہ دینگے کہ ان کو نمبر لگا دیں۔۔زرا کیس کو سیٹ اپ ہونے دیں۔وکیل پیپلز پارٹی فاروق نائیک نے کہا کہ ہمیں درخواست واپس کردی ہے نمبر لگانے کا حکم دیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ آپ بیٹھ جائیں ، کیا آپ نے میوزیکل چیئر کی گیم کھیلی ہے ، فاروق نائیک نے کہا کہ کرسی آنی جانی ہے انسان کو ڈٹے رہنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے وکیل صاحب ہیں ؟ عرفان قادر کہا کہ میں عدالت کی معاونت کروں گا۔ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ملکی لارجر انٹریسٹ میں یہاں عدالت میں پیش ہوا ہوں۔ معاملہ اہم آئینی معاملات کا ہے جو ہمارے لئے بھی اہم ہے، اس معاملے پر استدعا ہے کہ فل کورٹ بنایا جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اپنی نکات بنائے ہیں جو فل کورٹ کی تشکیل کے بارےمیں ہوں؟ عرفان قادر نے کہا کہ جی میں نے نکات بنائے ہیں۔ میں اپنے دلائل وہاں سے شروع کروں گا جہاں ہفتے والے دن سماعت کے دوران ختم کئے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اپ کا سوال ہے کہ ارٹیکل 63 اے سے متعلق ہے، عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے آرٹیکل 184/3کی درخواست پر آرٹیکل 63اےپر فیصلہ آیا ، اگر پارٹی ہیڈ کا کوئی اور موقف اور پارٹی کے ارکان جو ایوان میں ہیں ان کا موقف الگ ہے ، یہ سوال آپ کے سامنے ہے۔
عرفان قادر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا یہ کیس نیشنل امپارٹنس کا ہے، یہاں ساری پارٹیاں موجود ہیں۔جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ ہمارے فیصلے میں میرے مطابق عدالتی فیصلے میں کوئی ابہام نہیں، عرفان قادرنے کہا کہ آپ کے فیصلے میں ابہام ہے، آپ درخواست گزار سے بھی پوچھیں کہ ان کا کیا سوال ہے۔ جسٹس اعجازلاحسں نے کہا کہ آپ بار بار بول رہے ہیں ہماری بات بھی سنیں،اگر ہماری بات نہیں سننی تو کرسی پر بیٹھ جائیں۔ عرفان قادر نے کہا کہ آپ چیف جسٹس ہیں وکیلوں کو ویسے بھی ڈانٹ پلا سکتے ہیں۔لیکن آئین میں انسان کے وقار کی بات کی گئی ہے وہ بھی سامنے رکھیں۔ جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ ہم اپ کو محترم کرکے بلا رہے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے کہا کہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمانیٹری پارٹی لیڈر کو فیصلے کا حق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک قانونی سوال ہے جب تک ہم ایک پیج پر نہیں ہونگے تب تک ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکیں گے ۔
عرفان قادر نے کہا کہ میں کوشش کر رہا ہوں کہ میں اس سوال کو سمجھوں ، اس کیس میں سب کی نظریں سپریم کورٹ کی طرف لگی ہیں، آپ درخواست گزار سے سوال پوچھ لیں شاید وہ آ کو واضح کر دے کہ سوال ہےکیا۔ ججز نے عرفان قادر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے اب عدالت کو نہ سنا تو آپ کو واپس اپنی نشست پر بھیج دیں گے۔عرفان قادر نے کہا کہ عدالت تسلی رکھے ہم لڑنے نہیں، بلکہ عدالتی معاونت کرنے آئے ہیں، عدالت ہم سے ناراض نہ ہو جو بھی سوال پوچھا جائے گا وہ بتائیں گے۔
عرفان قادر سپریم کورٹ کے فیصلے کا پیرا ایک پڑھ رہے ہیں، آئین میں پارلیمنٹری پارٹی کا ذکر کیا گیا، اس پر تفصیل سے بات کرونگا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پہلے آپ مکمل پڑھ لیں اس کو سنیں گے۔عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے اپنے فیصلے میں آرٹیکل 63 کا مقصد سیاسی پارٹیوں کے مفادات کو تحفظ قرار دیا ہے۔عدالت نے حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان کو روسٹرم نے پر طلب کرلیا، وکیل منصور اعوان نے بتایا کہ میں نے اپنا جواب جمع کرادیا ہے ۔جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ فیصلے کے کونسے حصے پر ڈپٹی اسپیکر نے انحصار کیا اس کا بتائیں، منصور اعوان نے کہا کہ فیصلے کے پیرا گراف تین پر ڈپٹی اسپیکر نے انحصار کیا ہے۔ عدالت کے سامنے سوال ہے کہ پارلیمنٹری پارٹی کا کردار پارٹی ہیڈ کے ہوتے ہوئےکیا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63اے شامل کیا گیا ہے، آپ کا سیاسی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں کیا قانونی دلائل ہیں، آپ کے دلائل سے یہ سمجھا ہوں کہ ووٹنگ دینے کے عمل کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔منصور اعوان نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں مزید وضاحت کی گئی ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلہ کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے۔جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ پارٹی کی ہدایت اور پارٹی سربراہ کی ہدایات دو الگ چیزیں ہیں۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ ایک اہم اور سنجیدہ ایشو ہے اس معاملے میں آپ کے پہلے دلیل میں کہا کہ 8 میمبرز بنچ کا فیصلہ موجود ہے۔منصور اعوان نے کہا کہ عدالت کا فل کورٹ اس کیس کے میریٹ کو دیکھے، آئین میں جو الفاظ ہیں اس پر غور کرنا ہوگا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہر بار بنچ اگر نمبر کے حساب سے دکھیں تو وہ اشو نہیں ہوتا۔
وکیل نے کہا کہ اگر چھوٹا بنچ سمجھتا ہے کہ بڑا بنچ بننا چاہیئے تو پہر بڑا بنچ بن سکتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کے دلیل سے سمجھیں ہیں کہ ہمارے فیصلے کا پیرا ون ون ٹو ایسا ہے جس پر کچھ ہوسکتا ہے۔ پارٹی کے بنیادی حقوق کی بات کریں تو پھر دو اقسام کا کنٹرول سامنے آرہا ہے، اس پر کسی نے ابھی دلیل نہیں دی۔ ایک طرف پارٹی ہیڈ اپنے اختیارات استعمال کرکے ووٹ استعمال نہیں کرنے دیتا، تو دوسری طرف ارکان ووٹ استعمال کرنا چاہتے ہیں، ہمارے خیال میں ہمارا دیا گیا فیصلہ واضع ہے، مختصر فیصلے میں آپ پارلیمنٹری پارٹی ہیڈ اور پارٹی ہیڈ میں کنفیوژ ہورہے ہیں حالانکہ فیصلہ بڑا واضح ہے ۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت کے مختصر فیصلے نے ابہام پیدا کئے؟وکیل منصور اعوان نے دلائل میں پارٹی سربراہ کے عہدے اور اس کے اختیارات پر تفصیلی دلائل پیش کرتے ہوئے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر عدالتی فیصلہ ماضی کی عدلالتی نظیروں کی نفی ہے، سیاسی پارٹی ایک سپر اسٹرکچر ہے۔وکیل منصور اعوان نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے فیصلے کے کس حصے کے تحت کاروائی عمل میں لائی میں اس پر اب دلائل دیتا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے پارٹی اراکین کو ہدایت کیسے دی جاسکتی ہے اس کا طریقہ کیا خط لکھ کر دیا جانا ہے ؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس کیس میں چوہدری شجاعت رکن اسمبلی نہیں ، صورتحال پہلے سے مختلف ہے۔جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ منحرف ہونے والے عمل میں ایکشن لینے والا پارٹی ہیڈ ہوتا ہے، وہ پارٹی سربراہ ان کے خلاف ریفرنس بھیج سکتا ہے، اس کا ایک اہم کردرا ہے، میرے ذہن میں کلیئر ہے کہ پارٹی میں کون ہدایات دے سکتا ہے کون ڈکلیئریشن دے سکتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 کے کچھ زاویے ہیں، وزیر قانون اعظم۔نزیر تارڑ نے کہا کہ میرے پاس کچھ ہدایات ائی ہیں اگر اجازت ہو تو بتا دوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے وکیل کو بتا دیں۔، صدارتی ریفرنس میں ہمارے پاس بہت چیزیں سامنے آئی ہیں۔جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ اگر پارلیمنٹری پارٹی کہ طرف سے ہدایت آتی ہے تو وہ اس کا ایسنس ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران یہ بات ذہن میں آئی کہ جمہوریت کو پارٹی ہیڈ کی آمریت سے پاک رکھنا ہے، پارلیمانی جماعت کو خود مختار ہونا ہو گا، پارٹی ہیڈ کا کردار ضرور اہم ہے، مگر پارلیمانی معاملات میں پارلیمانی پارٹی کا بااختیار ہونا ضروری ہے، پارٹی ہیڈ کی آمریت برقرار رہنے سے موروثی سیاست کا راستہ بند نہیں ہو گا۔
جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ ہمارے سامنے کچھ سوال آئے ہیں، ایک سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کے جس پیرا کی تشریح کی وہ کیا صحیح ہے ، ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے پر انحصار کرتے ہوئے رولنگ دی۔ آئین میں پارلیمانی نمائندوں کو اختیارات دیئے گئے ہیں۔ کیا پارٹی کا میمبر پارٹی کہ ہدایات سے ہٹ کر فیصلہ کرسکتا ہے ؟ کیا ڈپٹی اسپیکر نے صحیح تشریح کرکے رولنگ دی؟وکیل منصور اعوان نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے صحیح تشریح کرکے رولنگ دی، اس سارے عمل میں ڈپٹی اسپیکر کے پاس عدالتی فیصلے پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ارکان پارلیمنٹ سے پارٹی ہیڈز کی ڈیکٹیٹر شپ کے بارے میں سنا ہے، پارلیمنٹری پارٹی کا ایک موقف ہونا چاہیئے، چاہے وہ پارٹی ہیڈ سے انفولینسڈ ہی کیوں نہ ہو، ارکان پارلیمنٹ کی آواز کو دبانے سے بچانے کے لیے پارلیمنٹری پارٹی کا کردار ہونا چاہیے۔
منصور اعوان نے کہا کہ فیصلے میں صرف یہ واضح کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹری پارٹی کیا ہے اور اس کا کیا کردار ہے، اسپیکر نے اس فیصلے کا سہارا لیا اور اس کے کچھ حصوں پر عمل کیا۔جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ فیصلے میں واضح ہے کہ اگر کسی ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمنٹری پارٹی کی ہدایات کی خلاف ورزی کی تو ووٹ مسترد ہوگا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ برطانیہ میں پارلیمان میں کوئی سربراہ نہیں ہوتا، آئین میں واضع ہے کہ ارکان کو پارٹی ہیڈ ہدایات دے گا۔ وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ ہمارے وکیل نوجوان ہیں انہوں نے اپنے کندہوں پر بڑا بوجھ اٹھایا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ برطانیہ میں پارلیمان میں کوئی سربراہ نہیں ہوتا، آئین میں واضع ہے کہ ارکان کو پارٹی ہیڈ ہدایات دے گا۔ وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ ہمارے وکیل نوجوان ہیں انہوں نے اپنے کندہوں پر بڑا بوجھ اٹھایا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جو سوال کررہے ہیں ، اس سے پریشان نہ ہوں، منصور اعوان بہت اچھے سے دلائل دے رہے ہیں۔جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ یہاں ہمارے پاس گزشتہ معاملے سے ہٹ کر معاملہ آیا ہے، یہاں پر دس ارکان نے ایک امیدوار کو ووٹ دیا کیونکہ پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ تھا، الیکشن کمیشن میں جو کیس آیا تھا وہ اس کیس سے الگ تھا، قانون فیکٹس کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ کیا ڈکلیئریشن دیا جاسکتا تھا یا نہیں ؟چیف جسٹس نے کہا کہ اس فیصلے میں بھی یہ انکار نہیں کیا گیا کہ ہمیں کوئی ہدایات نہیں ملیں، اس کیس میں جو شوکاز نوٹس جاری کئے تھے وہ اسد عمر، کی دستخط سے جاری کئے گئے تھے، انہوں نے اپنے ارکان کے خلاف ایکشن لیا تھا۔ الیکشن کمیشن میں کیس شوکاز جاری نہ ہونے کا تھا، اپیل میں بھی منحرف ارکان نے یہی موقف اپنایا ہے۔وکیل منصور اعوان نے کہا کہ شوکاز نوٹس اسی وقت جاری سکتا ہے جب پارٹی ہیڈ کی دی گئی ہدایات کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا ڈپٹی اسپیکرنے رولنگ دینے سے پہلےچوہدری شجاعت کا خط ہاوس کے سامنے رکھا؟ وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ مجھے اس حوالے سے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں، وزیرقانون نے روسٹرم پرآکر وکیل سے گفتگو کی جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کےموکل حمزہ شہباز ہیں ناکہ وزیرقانون، آپکو ہدایت وزیرقانون نہیں دے سکتے۔وکیل منصور اعوان نے کہا کہ میں نے کوئی ہدایات نہیں لیں، الیکشن کمیشن نے عمران خان کے ریفرنس پر ارکان کو ڈی سیٹ کیا۔منصور اعوان نے عمران خان کی ہدایت پر مبنی صفحہ عدالت میں پیش کردیا۔جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ یہ بھی سوال ہے کہ کیا پارلیمانی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کو overrule کرسکتا ہے ؟بنیادی سوال ہے پارٹی ہیڈ نے پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو اوو رول کیا آپ ہمیں اس پر مطمین کریں۔جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ اس پر عدالت کو دلائل کے ساتھ مطمئن کریں، منصور اعوان آپ نے جو درخواست میں گرائونڈز لکھے ہیں ان میں وہ باتیں نہیں لکھی جو یہاں کررہے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر ہم نظرثانی درخواستیں سماعت کے لئے مقرر کریں تو پھر ایسی صورت میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہو جائیگی، وکیل نے کہا پارلیمانی پالیسی ہی پارٹی کی ہدایت ہوتی ہے۔
عرفان قادر نے کہا کہ کیا پورے کیس میں آج ہی دلائل سنے جائینگے یاپہر فل کورٹ میں بھی سنا جائیگا؟ میں نے تو ابھی اپنے کیس پر دلائل دیئے ہی نہیں۔عثمان منصور نے اپنے دلائل مکمل کر لیے، چیف جسثس نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اچھے اور مدلل دلائل دئیے، کوئی دوسری طرف سے ہے جو دلائل دے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ابھی ہم صرف فل۔کورٹ کی بات سن رہے ہیں۔عدالت نے چوہدری شجاعت حسین کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین کو روسٹر پر بلالیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کو ابھی تک پارٹی نہیں بنایا لیکن اپ کو سن رہے ہیں۔ وکیل صلاح الدین نے کہا کہ میرے موکل بھی یہی چاھتے ہیں کہ فل کورٹ بنایا جائے، پارٹی بھی چوہدری شجاعت کی ہے اور خط بھی ان کا ہے۔جس کے بعد پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر دلائل دینے روسٹرم پر آگئے۔وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 22 جولائی کو وزیر اعلی کے انتخاب کے الیکشن ہوئے، قانون کے مطابق جو ووٹ کائونٹ ہوئے ہیں اس پر پرویز الہی صوبے کے وزیر اعلی ہیں، ڈپٹی اسپیکر نے ایون میں چوہدری شجاعت کا خط لہرایا جبکہ ووٹنگ سے پہلے ڈپٹی اسپیکر نے وہ خط کسی کو نہیں دکھایا۔وکیل علی ظفر نے اسپیکر رولنگ کے نقاط پڑھ کر سنائے، اور کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں اس عدالت کے فیصلے کا سہارا لیا۔ ڈپٹی سپیکر نے پولنگ کے دوران خط رویل نہیں کیا، آخری وقت پر خط لہرا کر دس ووٹ مسترد کر دیئے، جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر انحصار کیوں نہیں کیا؟عدالت میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی گئی باتوں کا تحریری مسودہ پڑھ کر سنایا گیا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں 63/اے کو جو سمجھا ہوں اس عدالت کو بتاتا ہوں، خط لہرانے کے بعد عدالتی فیصلے کا حوالہ دیکر ق لیگ کے ووٹ مسترد کیے گئے، ڈپٹی اسپیکر نے چوہدری شجاعت کا خط لہرا کر دکھایا، ڈپٹی اسپیکر نے ق لیگ کے دس ووٹ پرویز الہی کے کھاتے سے نکال دئیے، حمزہ کو 179 اور پرویز الہی کو 186 ووٹ ملے۔دس ووٹ کو شمار نہ کرنے پر حمزہ کو وزیر اعلی ڈکلئیر کردیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر آپ فل کورٹ تشکیل دینے یا نہ دینے پر دلائل دیں، یا پھر جو دوسرے فریق کے وکیل نے دلیل دیئے ہیں ان پر دلائل دیں۔پارٹی سربراہ کو پارلیمنٹری پارٹی کی ہدایات کے مطابق ڈکلئیریشن دینا ہوتی ہے، آرٹیکل 63 اے سے متعلق عدالت پہلے ہی مفصل رائے دے چکی ہے، فل کورٹ کی کیا ضرورت ہے ؟یہ چیف جسٹس کا اختیار ہے کہ فل کورٹ بنائے یا نہیں، گزشتہ 25 برس کے دوران صرف 3 یا 4 مقدمات میں فل کورٹ بنی ہے، کئی ایسے مقدمات ہیں جن میں فل کورٹ کی استدعا مسترد کی گئی ہے، عدالت پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے،کیا تمام عدالتی کام روک کر فل کورٹ ایک ہی مقدمہ سنے؟ گزشتہ سالوں میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا 15 مقدمات میں مسترد ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ نہ بنانے سے دیگر مقدمات پر عدالت کا فوکس رہا ہے، مقدمات پر فوکس ہونے سے ہی زیر التواء کیسز کم ہو رہے ہیں۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ عدالت اس پر قانون کے مطابق فیصلہ کرے، سب سے بڑے صوبے کو بغیر وزیر اعلی کے نہیں رکھا جاسکتا، اس کیس جس میں عدالت نے جو ووٹ کاسٹ نہ کرنے کا فیصلہ دیا تھا وہ لا آف لینڈ ہے، پوری قوم آپ کی شکر گزار ہے کہ اپ نے اچھا فیصلہ کیا، اگر نظرثانی درخواست پر سماعت کی جاتی ہے تو پانچ رکنی لارجر بنچ بنایا جائے۔وکیل علی ظفر نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بنچ پر مکمل اعتماد ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مشاورت کر کے فیصلے کریں گے کہ ہم خود یہ کیس سنے یا فل کورٹ تشکیل دیں، ہم سب کو بریک کی ضرورت ہے، فل کورٹ کی تشکیل پر سماعت مکمل ہو گئی، جس کا فیصلہ ساڑھے پانچ بجے سنایا جائیگا۔
Comments are closed.