آئندہ مالی سال کے لیے 8487 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش

اسلام آباد :حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے 8487 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ،، موبائل کالز اور انٹرنیٹ پیکجز مہنگے، الیکٹرک اور 850سی سی گاڑیاں سستی،، کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے ماہانہ رکھے ، شرح نمو کا ہدف 4.8 فیصد رکھا گیا جبکہ 1.1 ارب ڈالر کی ویکسین درآمد کئے جانے اور جون 2022ء تک دس کروڑ لوگوں کو ویکسین لگانے کا ہدف مقرر ،وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترقیاتی بجٹ ملک کی ترقی کا ضامن ہوگا، اسے اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے قابل بنائے گا،اپوزیشن ارکان نے بجٹ تقریر کے دوران شور شرابہ مچائے رکھا اسپیکر کے ڈائس کا گھیرائو کیا گیا

حکومت نے آئندہ مالی سال 2021-22کا 8487 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا،اپوزیشن ارکان کے شور شرابہ کے دوران وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے بجٹ پیش کیا وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ عمران خان نے جب حکومت سنبھالی تو انہیں شکستہ معیشت ورثہ میں ملی، ایک طرف ہمیں قرضوں کی وجہ سے دیوالیہ پن کی صورتحال کا سامنا تھا اور دوسری طرف درآمد کی طلب کو پورا کرنے کے لئے رقوم میسر نہیں تھیں۔ یہ صورتحال مسلم لیگ(ن) کی گزشتہ حکومت کی جانب سے بغیر سوچے سمجھے قرض لینے کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی۔ گزشتہ حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی معاشی نمائشی ترقی زیادہ شرح سود پر ملکی اور بیرونی ذرائع سے بہت زیادہ قرضے لینے کی وجہ سے تھی اور قرضے لینے کی ذمہ داری ہمارے اوپر آگئی۔ ماضی میں شاید ہی کسی نئی حکومت کو ایسی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ جس وقت ہم نے حکومت سنبھالی اس وقت کرنٹ اکاو نٹ خسارہ 20 ارب ڈالر کی تاریخی بلند ترین سطح پر تھا۔ درآمد تقریبا 56 ارب ڈالر کے ساتھ اور برآمدات 25 ارب ڈالر تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ اہم فصلوں کی پیداوار میں تاریخی اضافہ سے کسانوں کو 3100 ارب روپے کی آمدنی ہوئی جبکہ گزشتہ سال یہ آمدن 2300 ارب روپے تھی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ احساس پروگرام کے تحت 40 فیصد سے زائد لوگوں کو نقد امداد کی گئی، کوویڈ 19 کے باوجود گزشتہ ایک سال میں فی کس آمدنی میں اوسطا 15 فیصد اضافہ ہوا ہے،شوکت ترین نے بتایا کہ ملک میں ٹیکس وصولی 4ہزار ارب روپے کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے۔ ریفنڈ کی ادائیگی گزشتہ سال کی نسبت 75 فیصد زائد ہے۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں میں تین لاکھ بارہ ہزار کا اضافہ کیا ہے جنہوں نے 51 ارب روپے کے ٹیکس ریٹرن ادا کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال برآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے، ترسیلات زر میں 25 فیصد ریکارڈ اضافے کی وجہ سے یہ ذخائر 29 ارب ڈالر تک پہنچنے کے قریب ہیں جو سمندرپار پاکستانیوں کی وزیراعظم عمران خان کی قیادت پر اعتماد کا مظہر ہے۔ سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر ہیں جو 3 ماہ سے زیادہ کی درآمدی بل کے لئے کافی ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کافی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں خام تیل کی قیمتوں میں دنیا میں 180 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ملکی سطح پر ان کی قیمتیں صرف 45 فیصد بڑھیں۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری قرضے میں اب کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ اگلے تین سالوں میں ٹیکس کے نظام میں شفافیت اور بہتری لانے کی وجہ سے سرکاری قرضے میں مزید کمی آئے گی اور اسے پائیدار سطح پر لانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اعلان کرتے ہوئے انہیں خوشی ہے کہ اب معیشت کے استحکام کا مرحلہ کافی حد تک مکمل ہو چکا ہے۔ بجٹ 2021-22ء میں جامع اور پائیدار نمو کا حصول ہمارا محور ہوگا۔ اگلے سال کے لئے ہم نے معاشی ترقی کا ہدف 4.8 فیصد رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت کم آمدن ہاو سنگ کی مد میں 20 لاکھ روپے تک سستے قرضے دیئے جائیں گے۔ ہر گھرانے کو صحت کارڈ دیا جائے گا۔ ہر گھرانے کے ایک فرد کو مفت تکنیکی تربیت دی جائے گی۔ ہر کاشتکار گھرانے کو کاشت کے لئے ہر فصل کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے کا سود سے پاک قرضہ دیں گے اور ٹریکٹر اور مشینی آلات کے لئے دو لاکھ روپے قرض دیا جائے گا۔ ہر شہری گھرانے کو کاروبار کے لئے پانچ لاکھ روپے تک سود سے پاک قرض دیں گے۔

شوکت ترین نے کہا کہ ہماری آبادی کا 65 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ اگلے دو سے تین سالوں میں کم سے کم 6 سے 7 فیصد نمو یقینی بنانا چاہتے ہیں جس سے نوجوانوں کو روزگار ملے گا اور وہ خوشحال زندگی گزار سکیں گے۔ اس مقصد کے لئے صنعت ،برآمدات ، ہاوسنگ و تعمیرات، کمزور طبقات کے لئے سماجی تحفظ کے پروگرام اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ زراعت کے شعبے میں جامع منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے جس کے تحت بیج، کھاد، زرعی قرضے، ٹریکٹر اور مشینری ، کولڈ ویئر ہاوسز کی تعمیر اور فوڈ پراسیسنگ انڈسٹری میں مدد کی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں احساس پروگرام کے لئے 260 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں۔ صنعت اور برآمدات کے لئے خصوصی کوششیں کی جائیں گی۔ کم آمدن گھرانوں کو اپنا گھر خریدنے یا بنانے میں مدد کے لئے تین لاکھ روپے سبسڈی دی جارہی ہے اس مقصد کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 33 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بنکوں سے 100 ارب روپے کی فراہمی کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سے 70 ارب روپے کی فراہمی کی منظوری دے دی گئی ہے اور اس کی ادائیگی شروع ہو گئی ہے۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ مختلف سروسز پر منافع کا مارجن کم ہے اور عائد ودہولڈنگ شرح بہت زیادہ ہے جس سے ان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تجویز ہے کہ آئل فیلڈ سروسز، ویئر ہاوسنگ سروسز، کولیکٹرل مینجمنٹ سروسز، سیکیورٹی سروسز اور ٹریول اینڈ ٹور سروسز پر ودہولڈنگ ٹیکس شرح کو آٹھ فیصد سے کم کرکے تین فیصد تک کردیا جائے۔۔ شوکت ترین نے بتایا کہ موبائل سروسز پر موجودہ ودہولڈنگ ٹیکس شرح 12.5 فیصد ہے۔ عام شہری پر بوجھ کو کم کرنے کے لئے تجویز ہے کہ اگلے مالی سال کے لئے اس شرح کو کم کرکے 10 فیصد کردیا جائے۔ تجویز ہے کہ اس کو بتدریج 8 فیصد تک کم کردیا جائے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعلان کیا کہ معاشی حالات میں بہتری آئی ہے اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید بھی متاثر ہوئی ہے اس لئے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے لئے اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے جس کے مطابق یکم جولائی 2021سے تمام وفاقی سرکاری ملازمین کو دس فیصد ایڈہاک ریلیف الاونس دیا جائے گا۔ یکم جولائی سے پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ اردلی الاونس 14 ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 17500 کردیا جائے گا۔ گریڈ ایک سے پانچ تک کے ملازمین کے انٹیگریٹڈ الاونس 450 روپے سے بڑھا کر 900 روپے کئے جانے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعلان کیا کہ کم آمدن افراد پر مہنگائی کے دبا وکو کم کرنے کے لئے کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے ماہانہ کی جارہی ہے۔

 وزیر خزانہ نے بتایا کہ کمزور طبقات کی امداد کے لئے احساس پروگرام کے تحت ایک درجن سے زائد پروگراموں کا آغاز کیا گیا ہے جس میں کیش ٹرانسفر، کامیاب جوان، بلاسود قرضے، نیوٹریشن تحفظ، چھوٹے کاروبار کے آغاز کے لئے مالی امداد، یتیموں، بے سہارا بچوں، مجبوری کے تحت ہجرت کرنے والوں، مزدور بچوں ، جبری مشقت کا شکار افراد اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لئے مالی امداد، غرباکے لئے کھانوں کی فراہمی کے لئے لنگر، راشن کی تقسیم کے لئے فوڈ کارڈ، کھانے اور دیگر اشیاکی فروخت کے لئے نئے طرز کے ٹھیلے شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ توانائی کے شعبہ میں اصلاحات کے لئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ گردشی قرضے کو کم اور پھر ختم کرنے کے لئے منصوبہ بندی ، پرائیویٹ پاور پروڈیوسر کے تعاون سے گردشی قرضے کی تشکیل نو، بجلی کی زیادہ کھپت والی صنعتوں کے لئے مراعات، لائن لاسز کم کرنے کے لئے بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے عمل میں ضروری سرمایہ کاری، بجلی کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے الیکٹرک وہیکل پالیسی کا اعلان اور مجموعی لاگت کم کرنے کے لئے ہائیڈرو اور قابل تجدید توانائی کے ذریعے سستی بجلی کی پیداوار کا حصول شامل ہے۔ اگلے دو سالوں میں ہم اس سیکٹر کے تمام مسائل کے حل کے لئے مزید ڈھانچہ جاتی اصلاحات کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ مالیات اور بنکاری، بجٹ اور قرضوں کو قابل برداشت سطح تک لانے ، قیمتوں کے استحکام، انڈسٹری اور برآمدات، پبلک سیکٹر انٹرپرائز اور نجکاری پالیسی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ملک کی اندرونی تجارت کے شعبوں میں قلیل المدتی ، وسط مدتی اور طویل المدتی منصوبوں کو حتمی شکل دینے کے قریب ہیں۔ اس مقصد کے لئے اعلی سطح کی اکنامک ایڈوائزری کونسل تشکیل دی گئی ہے۔ اس حوالے سے آئندہ چند ہفتوں میں منصوبہ جات پیش کریں گے۔

 شوکت ترین نے کہا کہ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کو 630 ارب روپے سے بڑھا کر 900 ارب روپے کر رہے ہیں جو تقریبا 40 فیصد اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے لئے خوراک اور پانی کی دستیابی ، توانائی کا تحفظ، روڈ انفراسٹرکچر میں بہتری، چین پاکستان معاشی راہداری پر عملدرآمد میں پیشرفت، خصوصی اقتصادی زونز کی تعمیر اور انہیں فعال بنانے، پائیدار ترقیاتی اہداف، موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات، ٹیکنالوجی کی مدد سے علوم میں پیشرفت اور علاقوں کے مابین پائے جانے والے فرق کا تدارک، اگلے سال ہماری ترقیاتی ترجیحات ہیں اس سے معاشی ترقی کے فروغ کے ساتھ ساتھ بیروزگاری اور غربت میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ زرعی شعبے میں ٹڈی دل، ایمرجنسی اور فوڈ سیکیورٹی پراجیکٹ کے لئے ایک ارب روپے، چاول، گندم، کپاس ،گنے اور دالوں کی پیداوار میں اضافے کے لئے دو ارب روپے ، تجارتی بنیادوں پر زیتون کی کاشت بڑھانے کے لئے ایک ارب روپے، آبی گزرگاہوں کی مرمت اور بہتری کے لئے تین ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ آبی تحفظ کے حوالے سے شوکت ترین نے کہا کہ اس مقصد کے لئے 91 ارب روپے رکھے جارہے ہیں۔ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لئے 57 ارب روپے، دیامر بھاشا ڈیم کے لئے 23 ارب روپے، مہمند ڈیم کے لئے چھ ارب روپے اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لئے 14 ارب روپے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ دیگر منصوبے بھی زیر عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین پاکستان معاشی راہداری کے تحت 13 ارب ڈالر مالیت کے 17 بڑے منصوبے مکمل کرلئے گئے ہیں۔ 21 ارب ڈالر مالیت کے مزید 21 منصوبے جاری ہیں۔ اس کے علاوہ سٹریٹجک نوعیت کے 26 منصوبے منصوبہ بندی کے مراحل میں ہیں جن کی مالیت 28 ارب ڈالر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کراچی لاہور موٹروے کی تکمیل، حویلیاں تھاہ کوٹ اور شاہراہ قراقرم فیز ٹو، ڑوب کچلاک روڈ، چترال بونی مستوج شندور روڈ کی مرمت اور توسیع، پاکستان ریلویز کی مین لائن ایم ایل ون کی بہتری اور حویلیاں کے قریب ڈرائی پورٹ کی تعمیر اور چین اور دیگر ممالک سے فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ کے ساتھ اکنامک زونز کی آبادکاری اہم ترجیحات ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ نارتھ ساتھ ریلوے انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے لئے ایم ایل ون منصوبے کی لاگت 9.3 ارب ڈالر ہے۔ اسے تین پیکجز میں مکمل کیا جائے گا۔ پیکج ون کا آغاز مارچ 2020میں ہو چکا ہے جبکہ پیکج ٹو کا آغاز آئندہ ماہ اور پیکج تھری کا آغاز جولائی 2022میں ہوگا۔ ہماری حکومت اس قومی پراجیکٹ کے کام کو تیز کرنے کی خواہشمند ہے اس سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچے گا اور سامان کی نقل و حمل میں بہتری آئے گی۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ اس وقت ملک میں بجلی کی پیداواری گنجائش فاضل ہے تاہم ساری کی ساری بجلی اینڈ یوزر تک ترسیل کرنے کے قابل نہیں ہیں، اس کے لئے اسلام آباد ویسٹ اور لاہور نارتھ ایک ہزار کے وی ٹرانسمیشن لائنز کے لئے 7.5 ارب روپے، داسو سے 2160 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے 8.5 ارب روپے، سکی کناری، کوہالہ، ماہل ہائیڈرو پاور پراجیکٹس سے بجلی پیدا کرنے کے لئے ساڑھے پانچ ارب اور حیدرآباد سکھر سیکنڈری ٹرانسمیشن لائنز کے لئے 12 ارب روپے رکھے جانے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ جامشورو میں کوئلے کی مدد سے 1200 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے 22 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کراچی میں کے ون اور کے ٹو منصوبے اور تربیلا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی پانچوی توسیع کے لئے ساڑھے 16 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مختلف علاقوں کے درمیان ترقی کے فرق کو دور کرنے کے لئے حکومتی اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے

شوکت ترین نے بتایا کہ حکومت سے پسماندہ علاقوں کی ترقی یقینی بنانے کے لئے خصوصی ترقیاتی پیکج شروع کئے ہیں ان میں اس مقصد کے لئے 100 ارب روپے مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔ جنوبی بلوچستان کے لئے ترقیاتی منصوبے کے تحت 601 ارب روپے کی لاگت سے 199 منصوبوں کی فنڈنگ پر مشتمل پیکج کے تحت اس بجٹ میں 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا کل حجم 739 ارب روپے ہے جس کے لئے 98 ارب روپے وفاقی حکومت دے گی جبکہ سرکاری و نجی شعبہ کے اشتراک سے 509 ارب روپے اور سپریم کورٹ فنڈ سے 125 ارب روپے دیئے جائیں گے۔ اس پلان کے تحت نالوں، دریاں، سڑکوں کی تعمیر ، ماس ٹرانزٹ پراجیکٹس اور واٹر سپلائی کی سہولت فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ گلگت بلتستان سماجی اقتصادی ترقی کے منصوبے کے تحت 162 ارب روپے کی لاگت کے 29 پراجیکٹ شامل ہیں جبکہ اس بجٹ میں اس کے لئے 40 ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں۔ سندھ کے 14 سے زائد اضلاع کے لئے ترقیاتی منصوبہ کے تحت 444 ارب روپے کی لاگت کے 107 منصوبوں کی تکمیل کی جائے گی۔ اس سال بجٹ میں اس مقصد کے لئے ساڑھے 19 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لئے 54 ارب روپے رکھے گئے ہیں، ان میں سے 30 ارب روپے دس سالہ ترقیاتی منصوبے کے لئے ہیں۔

 وزیرخزانہ نے بتایا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اتھارٹی کے پاس 2000 ارب روپے لاگت کے پچاس منصوبے موجود ہیں ان میں سیالکوٹ تا کھاریاں اور سکھر تا حیدرآباد موٹروے پر کام 233 ارب روپے کی لاگت سے شروع کردیا گیا ہے۔ 710 ارب روپے کے مزید منصوبوں پر آئندہ مالی سال میں کام شروع ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 14 ارب روپے کے منصوبے مختص کئے گئے ہیں۔ سماجی شعبہ وزیراعظم عمران خان کی اولین ترجیحات میں ہے۔ اس کے لئے 118 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں جن میں سے 30 ارب روپے صحت، 44 ارب روپے اعلی تعلیم، 68 ارب روپے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول اور 16 ارب روپے ماحولیات کو بہتر بنانے کے لئے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے آئندہ مالی سال 2021-22ء کے بجٹ کے نمایاں خدوخال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ گراس ریونیو کا تخمینہ 7909 رکھا گیا ہے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ ہے۔ ایف بی آر محاصل میں 24 فیصد اضافہ کے ساتھ 4691 ارب روپے سے بڑھ کر 5829 ارب روپے کا اضافہ متوقع ہے۔ نان ٹیکس ریونیو کے 22 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔ وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ گزشتہ سال کے 2704 ارب روپے سے بڑھ کر 3411 ارب روپے رہے گا جو 25 فیصد اضافہ ہوگا صوبوں کو منتقلی کے بعد خالص وفاقی محاصل کے بعد تخمینہ 4497 ارب روپے ہے جو 22 فیصد اضافی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی اخراجات 8487 ارب روپے رہیں گے جبکہ اس کے مقابلے میں رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ اخراجات 7341 روپے تھے، ان اعداد و شمار سے وفاقی اخراجات میں 15 فیصد اضافہ ظاہر ہو رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب قوم اپنی تاریخ کے مشکل دور سے گزر رہی ہے ضروری ہے کہ حکومتی اخراجات میں کمی لائی جائے اور اس کے لئے کفایت شعاری کے اقدامات حکومت جاری رکھے گی۔ انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال اخراجات کا تخمینہ 6541 ارب روپے سے بڑھ کر 7523 ارب روپے رہنے کی توقع ہے جس سے رواں اخراجات میں 14 فیصد اضافہ ظاہر ہو رہا ہے۔ رواں اخراجات میں سے سود کی ادائیگی اور کویڈ 19 پر ایک بار اخراجات کو نکال کر رواں اخراجات میں 12 فیصد اضافے کی توقع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سبسڈیز کا تخمینہ 682 ارب روپے لگایا گیا ہے جن پر نظرثانی شدہ تخمینہ جات کے مطابق 430 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس میں آئی پی پیز کو کی جانے والی ادائیگیاں، ٹیرف میں فرق کی بناپر دی جانے والی سبسڈی اور خوراک کی اشیاء پر دی جانے والی سبسڈی شامل ہیں۔

 وزیر خزانہ نے بتایا کہ احساس پروگرام کے لئے مختص رقوم جن میں پاکستان بیت المال اور غربت کی تخفیف کے فنڈ کے لئے مختص رقوم شامل ہیں۔ ان میں مالی سال 2020-21کے نظرثانی شدہ 210 ارب روپے کے تخمینہ جات سے اضافہ کرکے 260 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جوکہ 24 فیصد کے اضافہ پر مبنی ہے۔ یہ اب تک معاشرے کی کم آمدنی والے طبقات کے لئے مختص کردہ سب سے زیادہ رقم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سال 2021-22کا مجموعی بجٹ خسارہ 6.3 فیصد رہنے کی توقع ہے جبکہ رواں مالی سال یہ تخمینہ 7.1 فیصد رہنے کی امید ہے۔ پرائمری خسارہ کا ہدف 0.7 فیصد ہے جوکہ رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ تخمینہ کے مطابق 1.2 فیصد لگایا گیا ہے۔ پرائمری خسارہ کا یہ ہدف مقرر کرکے حکومت تین سالوں میں پرائمری خسارہ 3.2 فیصد کی کل کمی لانے میں کامیاب رہے گی۔ 2018-19میں یہ خسارہ 3.8 فیصد تھا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اہم اخراجاتی ترجیحات میں عوام کی ویکسی نیشن کے لئے 1.1 ارب ڈالر ویکسین کی درآمد پر خرچ کئے جائیں گے۔ جون 2022تک دس کروڑ لوگوں کو ویکسین لگانے کا ہدف ہے۔ یونیورسل ہیلتھ کوریج کو مزید وسعت دی جائے گی۔ ایس ایم ای سپورٹ پروگرام کے لئے 12 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کامیاب پاکستان پروگرام کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں، وزیراعظم کی ہدایت پر اینٹی ریپ فنڈ قائم کیا جارہا ہے جس کے لئے ابتدائی طور پر دس کروڑ روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔ اعلی تعلیم کا بجٹ 66 ارب روپے جبکہ ترقیاتی بجٹ کے لئے اسے 44 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔ بعد ازاں اس میں 15 ارب روپے کا اضافہ کیا جائے گا۔ برآمدی شعبہ کے لئے سپورٹ فنڈ فراہم کرنے کا عمل جاری رکھا جائے گا۔ سرکاری اداروں کے لئے امداد کی مد میں پی آئی اے کیلئے 20 ارب اور سٹیل ملز کے لئے 16 ارب روپے بجٹ میں رکھے گئے ہیں۔ خصوصی علاقوں کی امداد کے تحت آزاد جموں و کشمیر کے بجٹ کو 54 ارب روپے سے بڑھا کر 60 ارب جبکہ گلگت بلتستان کے بجٹ کو 32 ارب سے بڑھا کر 47 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔ سندھ کو 19 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ اور بلوچستان کو این ایف سی حصے کے علاوہ مزید 10 ارب روپے فراہم کئے جانے کی تجویز ہے

وزیر خزانہ نے کہا کہ مردم شماری 2022کے لئے 5 ارب روپے وفاقی حصے کے طور پر تجویز کی گئی ہے۔ بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کے لئے 5 ارب روپے اور کوویڈ 19 ایمرجنسی فنڈ کی مد میں 100 ارب روپے رکھے جانے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ٹیکس گزاروں کا تحفظ کریں گے تاکہ ان کے واجب الادا ٹیکس پر مزید کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔ ٹیکس پالیسی کے مختلف اصولوں میں تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔ ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ای آڈٹ سسٹم کے تحت آڈٹ کے لئے باہر سے آڈیٹرز کا انتخاب کیا جائے گا۔ جان بوجھ کر چھپائی گئی معلومات یا ٹیکس چوری مجرمانہ تصور ہوگی جس پر جیل جانے کی سزا دی جائے گی۔ خود تشخیصی سکیم کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا جس کے تحت ہر شخص اپنے ٹیکس گوشوارے خود بنا کر ایف بی آر کو بھیجے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکس مشینری کو ٹیکس چوری کرنے والوں کے خلاف اور ٹیکس نیٹ میں شامل نہ ہونے والوں کے خلاف مزید متحرک کریں گے۔ ٹریک اینڈ ٹریس کے نظام کو ابتدائی طور پر چار صنعتوں کے لئے شروع کیا جائے گا۔ جی ایس ٹی نیٹ میں اضافے کے لئے تمام ریٹیل اور ہول سیل ٹرانزیکشنز کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا۔ کسٹمر کے لئے ہر ماہ قرعہ اندازی کے بعد سیلز ٹیکس وصولی پر انعامات تقسیم کریں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان سنگل ونڈوز پراجیکٹ کا آغاز کیا جارہا ہے۔ سروسز میں سیلز ٹیکس میں ہم آہنگی لانے کے لئے صوبوں کے ساتھ مشاورت کے بعد عملی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ٹیکس نظام کو مزید سادہ بنانے کے لئے نیا سادہ ٹیکس ریٹرن فارم اور نئے ٹیکس کوڈ اور قوانین لائے جارہے ہیں۔ انہوں نے فنانس بل میں شامل تجاویز کے حوالے سے بتایا کہ سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے تحت گھریلو صنعت کے سالانہ ٹرن اوور میں اضافہ کی تجویز ہے، اس کے تحت دس ملین روپے تک کی سالانہ ٹرن اوور والی صنعت کو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ اس سے قبل تین ملین تک ٹرن اوور رکھنے والے چھوٹے کاروبار کو بھی سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہونا پڑتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کاروبار میں آسانیوں کے لئے جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ان میں فرنیچر کے کاروبار سے منسلک ٹیر ون ریٹیلر دکان کے رقبہ میں دگنا اضافہ، ریفنڈ کی ادائیگی میں تاخیر کے لئے معاوضے کے دائرہ کار میں اضافہ اور واجب الادا سیلز ٹیکس کو ایڈوانس ادائیگی سے استثنی دیئے جانے کی تجویز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ضم شدہ اضلاع کی صنعتوں کے لئے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ دیئے جانے کی تجویز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پھلوں کے رس پر عائد فیڈریل ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔ قرآن پاک کی اشاعت میں استعمال ہونے والے کاغذ پر چھوٹ کے دائرہ کار کو وسیع کیا جارہا ہے۔ مقامی طور پر تیار کی گئی الیکٹرک گاڑیوں کے لئے سیلز ٹیکس کی شرح میں 17 فیصد سے ایک فیصد تک کمی ، الیکٹرک گاڑیوں اور سی کے ڈی کٹس کی درآمد پر ویلیو ایڈیشن ٹیکس کی چھوٹ اور چار پہیوں والی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ شامل ہے۔ اس کے علاوہ آٹو ڈس ایبل سرنج اور آکسیجن سلنڈر پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ دینے کی تجویز ہے۔ سپیشل ٹیکنالوجی زونز، زرعی اجناس کے ذخیرہ گوداموں کو ٹیکس چھوٹ کی تجویز ہے۔ ٹیلی کام خدمات پر فیڈریل ایکسائز ڈیوٹی 17 فیصد سے 16 فیصد کمی کی تجویز ہے۔ مرچنٹ ڈسکاٹ ریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں چھوٹ کی تجویز ہے۔ ایف بی آر سے منسلک شدہ ٹیر ون ریٹیلرز کی طرف سے دی گئی الیکٹرانک رسید پر قرعہ اندازی کے بعد ماہانہ بنیادوں پر 250 ملین روپے کے انعامات ان خریداروں کو دیئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ای کامرس لین دین کو سیلز ٹیکس میں شامل کرنا، مخصوص سیکٹر کی برانڈ کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ ٹیلی مواصلات خدمات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے نفاذ کی تجویز ہے جس کے تحت 3 منٹ سے زائد جاری رہنے والی موبائل فون کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال اور ایس ایم ایس پیغامات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چینی کی قیمتوں میں بے ضابطگیوں کو دور کرنے کے لئے تجویز ہے کہ چینی کو سیلز ٹیکس ایکٹ کے تھرڈ شیڈول میں شامل کرلیا جائے تاکہ ٹیکس اصل مارکیٹ قیمت پر لاگو ہو۔ ری کلیمڈ لیڈ اور استعمال شدہ لیڈ بیٹریوں پر سیلز ٹیکس ودہولڈنگ کے نفاذ کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس کے حوالے سے مختلف تجاویز ہیں جن میں شوکاز نوٹس کی انجام دہی کے لئے متعین وقت کی حد کو 120 دن کئے جانے ، کسٹمر کے ایڈوانس ٹیکس اندازے کو رد کرنے کا اختیار ختم کرنے کی تجویز ہے۔ ٹیکس حکام کے آڈٹ اور انکوائری کے لئے صوابدیدی اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایف بی آر کی بجائے تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کرایا جائے گا۔ ری فنڈ حاصل کرنے کے لئے ٹیکس گزاروں کی سہولت کے لئے خودکار ری فنڈ کے مرکزی نظام کی تجویز ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس گزاروں کے استثنی سرٹیفکیٹ کے اجراکو 15 ایام کے اندر یقینی بنانے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ الیکٹرانک سماعت کے نظام کو متعارف کرایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متبادل تنازعات حل کی متبادل کمیٹیوں کو مضبوط کرنے کی تجویز ہے جس کے تحت کمیٹی کی تشکیل کے لئے درکار وقت کو 60 دن سے کم کرکے 30 اور کیسز پر فیصلہ کی مدت 120 دنوں سے کم کرکے 60 دن کرنے کی تجویز ہے۔ ودہولڈنگ ٹیکس رجیم میں 40 فیصد کمی کا اعلان کرتے ہوئے شوکت ترین نے بتایا کہ 12 ودہولڈنگ شقوں کو ختم کرنے کی تجویز ہے جن میں بنکنگ ٹرانزیکشنز، پاکستان سٹاک ایکسچینج، مارجن فنانسنگ، ایئر ٹریول سروسز، قرض اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے بین الاقوامی ٹرانزیکشنز اور معدنیات کی دریافت شامل ہے۔ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ کوویڈ 19 وباکی وجہ سے کیپٹل مارکیٹ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ تجویز ہے کہ کیپیٹل گین ٹیکس کی شرح کو 15 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد کردیا جائے۔ پراپرٹی آمدنی پر نقصانات کی ایڈجسٹمنٹ کی تجویز دی گئی ہے۔ این جی اوز جیسے عبدالستار ایدھی فاونڈیشن، انڈس ہسپتال اینڈ نیٹ ورک، پیشنٹ ایڈ فاونڈیشن، سندس فاونڈیشن، سٹیزنز فاونڈیشن اور علی زیب فاونڈیشن وغیرہ کو غیر مشروط ٹیکس چھوٹ دیئے جانے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس میں ٹرن اوور بنیاد پر متبادل کم از کم ٹیکس کے بارے میں تین تجاویز پیش کی گئی ہیں ان میں افراد اور ایسوسی ایشن آف پرسنز کے لئے ٹرن اوور کی بنیاد کم سے کم دس کروڑ روپے تک کئے جانے، عمومی ٹیکس شرح کو 1.5 فیصد سے کم کرکے 1.25 کئے جانے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتابوں، رسالوں، زرعی آلات اور 850 سی سی تک کاروں کے سی بی یو کی درآمد کو ودہولڈنگ ٹیکس سے استثنی دیا جارہا ہے۔ ٹیکس قوانین کی عدم تعمیل ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اکاونٹ نوٹیفائی نہ کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایم ایز کے لئے فکس ٹیکس سکیم کی تجویز ہے۔ آئی ٹی سروسز، فری لانسز اور دوسری سروسز کی برآمد کو فروغ دینے کے لئے ایک خصوصی ٹیکس رجیم متعارف کرانے کی تجویز ہے۔ پاکستان میں آئی ٹی سیکٹر کو ریلیف کی مد میں متعلقہ سروسز کی ایکسپورٹ کو سو فیصد ٹیکس کریڈٹ کے دائرہ کار میں لایا گیا ہے۔ سپیشل اکنامک زونز سی پیک کا ایک بنیادی پراجیکٹ ہے اس کو ٹیکس سے مستثنی رکھا گیا تھا تاہم قانون کے تحت ان کے ٹرن اوور پر کم از کم ٹیکس عائد ہوتا ہے۔ یہ تجویز ہے کہ سپیشل اکنامک زون انٹرپرائزز کو ٹیکس 2021سے کم از کم ٹیکس میں چھوٹ دے دی جائے۔ سپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹیز کی تشکیل موجودہ حکومت کا بڑا اقدام ہے۔ جدت، ٹیکنالوجی اور کاروبار کے فروغ کے لئے خصوصی ٹیکس مراعات کے تحت دس سالہ ٹیکس چھوٹ، کیپٹل گڈز کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ، زون انٹرپرائزز میں سرمایہ کاری سے پرائیویٹ فنڈز سے حاصل کردہ آمدنی کے منافع پر ٹیکس چھوٹ شامل ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس بجٹ میں لائیو سٹاک پولٹری اور زراعت کے شعبہ کو ریلیف کے لئے بہت سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ مویشیوں کی دوا کے لئے ویکسین کو کسٹم ڈیوٹی سے چھوٹ دے دی گئی ہے۔ پولٹری سیکٹر کی خوراک میں شامل اجزاپر ٹیرف میں چھوٹ، آٹو سیکٹر میں پہلے سے بننے والی گاڑیوں اور نئے ماڈل بنانے والوں کو ایڈوانس کسٹم ڈیوٹی سے استثنی دیا جارہا ہے۔ ان اقدامات سے حکومت کی میری گاڑی سکیم کو کامیابی ملے گی۔ اس طرح چھوٹی گاڑیوں کی قیمت کم ہوگی۔ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لئے ایک سال تک کسٹم ڈیوٹی کم کی جارہی ہے۔ ان اقدامات سے آٹو سیکٹر میں انقلابی تبدیلی آنے کی امید ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کوویڈ 19 سے متعلقہ میڈیکل سامان اور اشیاپر چھوٹ کی مزید چھ ماہ کی توسیع دیئے جانے کی تجویز ہے۔ 300 سے زائد ایکٹیو فارما سیوٹیکل اجزاکو کسٹم ڈیوٹیز ادائیگی سے چھوٹ دے دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے وژن کے مطابق پاکستان کو دنیا میں سیر و سیاحت کے لئے دوست ملک بنانے کی تکمیل میں موجودہ بجٹ میں سیاحتی شعبہ کو خاص طور پر توجہ دی گئی ہے۔ اس سے وابستہ اہم مینوفیکچرنگ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کے لئے ان میں استعمال ہونے والے خام مال اور اشیاکو یا تو صفر فیصد کسٹمز ڈیوٹی سلیب میں شامل کردیا گیا ہے یا پھر مراعاتی ریٹس دے دیئے گئے ہیں۔ ریگولیٹری ڈیوٹی پر بھی نظرثانی کی گئی ہے اور بہت سی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی یا تو ختم کردی گئی ہے یا پھر کم کردی گئی ہے۔ موبائل فون ڈیوائس پالیسی کے اعلان کے بعد پاکستان کی مقامی موبائل فون بنانے والی صنعت نے بہت متاثر کن پیداوار شروع کردی ہے وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی موبائل برآمد کرنا شروع کردے گا۔ سمگلنگ کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے حکومت پرعزم ہے۔ پاکستان کسٹم کی بھرپور کاوشوں کی بدولت رواں مالی سال اب تک 52 ارب روپے کی سمگل شدہ اور ممنوعہ اشیاکو ضبط کی جاچکا ہے۔ اس کے لئے بارڈر مینجمنٹ جیسے اقدامات اور خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ پاکستان سنگل ونڈوز پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد 74 سے زائد حکومتی اداروں اور پورٹ کمیونٹی کو ایک پلیٹ فارم کے ساتھ منسلک کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت برآمد کنندگان کو بھرپور سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ ایکسپورٹ سہولتی سکیم کا مسودہ ایف بی آر نے تیار کیا ہے، یہ سکیم تمام ایکسپورٹرز کو یکساں مواقع فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسا بجٹ پیش کیا ہے جو امید افزا ہے امید ہے یہ بجٹ مستحکم معاشی کارکردگی کی نوید ثابت ہوگا۔ ہمارا معاشی پروگرام معاشرے کے تمام طبقات کی بہبود کا سبب بنے گا۔ زراعت سے لے کر صنعت تک، خدمات کے شعبہ سے لے کر سماجی شعبے، مزدوروں، کسانوں، خواتین، طلباء و طالبات، بے گھر افراد، سرکاری ملازمین اور نوجوانوں کے لئے اس میں اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ شوکت ترین نے کہا کہ یہ ترقیاتی بجٹ ملک کی ترقی کا ضامن ہوگا اور اسے اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے قابل بنائے گا۔ یہ ایسا بجٹ ہے جس میں وطن عزیز کے مفلس اور پسماندہ طبقات کا خیال رکھا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا بجٹ ہے جس میں نوجوانوں کو معاشرے کا فعال رکن بننے کے لئے تجاویز شامل کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان ولولہ انگیزی سے لیبر مارکیٹ کا حصہ بن رہے ہیں تاکہ وہ دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان چیلنجز سے بھرپور مواقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں جس کے ذریعے وہ نئی دنیا کے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری زراعت میں ترقی کرنے کی صلاحیت سے بالکل فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ ہم زرعی شعبہ میں سرمایہ کاری کرنے جارہے ہیں۔ کولڈ چینز سٹوریج کی سہولیات کی فراہمی، کسانوں کو منڈیوں تک رسائی آسان بنانے، بیجوں کی بہتر کوالٹی فراہم کرنے اور انہیں قرضوں اور آب رسانی تک رسائی ممکن بنائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کو گھر فراہم کر رہے ہیں تاکہ ملک میں بے گھر لوگ اپنا گھر حاصل کرسکیں۔ انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا کہ ہم وزیراعظم کے فلاحی معاشرے کے قیام کے وژن کو عملی جامع پہنانے کے لئے کوشاں ہیں جس کا عملی مظاہرہ ہمارے پیغمبر ﷺنے ہمارے لئے پیش کیا تھا۔ مدینہ کا فلاحی معاشرہ ایک ایسا نظام ہے جو لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔

،بجٹ تقریر میں ان کا کہناتھا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنروں کی پنشن میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی بجٹ کا حجم 900 ارب روپے ہے، کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے ماہانہ رکھے جانے کی تجویز ہے، وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ گزشتہ سال کے 2704 ارب روپے سے بڑھ کر 3411 ارب روپے رہے گا، گراس محصولات کا حجم 7909 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے جو گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ 6395 ارب روپے کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ ہے، نان ٹیکس ریونیو میں 22 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، مجموعی سبسڈیز کا تخمینہ 682 ارب روپے لگایا گیا ہے، احساس پروگرام کے لئے 260 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، شرح نمو کا ہدف 4.8 فیصد رکھا گیا ہے، مقامی طور پر بنائی جانے والی 850 سی سی تک کاروں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں چھوٹ اور سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد کی جارہی ہے جبکہ اس پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا خاتمہ کرنے کی تجویز ہے، 1.1 ارب ڈالر کی ویکسین درآمد کئے جانے اور جون 2022ء تک دس کروڑ لوگوں کو ویکسین لگانے کا ہدف ہے۔

Comments are closed.