ہیومن رائٹس واچ کا مقبوضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پراظہار تشویش

انسانی حقو ق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سینکڑوں کشمیری نظربندوں کی حالت زار کا حوالہ دیتے ہوئے مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی ابتر صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے اپنی عالمی رپورٹ 2021میں بھارت سمیت سو سے زائد ممالک میں انسانی حقو ق کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں نافذ اس کالے قانون کے تحت بھارتی فورسز کے اہلکاروں کو انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر مسلسل استثنیٰ حاصل ہے۔

گزشتہ سال جولائی میں بھارتی فورسز نے ضلع شوپیاں میں تین کشمیریوں کو عسکریت پسند قراردیتے ہوئے قتل کیا۔ تاہم ان کے اہلخانہ نے سوشل میڈیا پرجاری ہونے والی تصاویر کے ذریعے انکی شناخت کرتے ہوئے فورسز کے دعویٰ کو مستردکردیا ااور کہاکہ وہ محنت کش تھے۔ ستمبر میں بھارتی فوج نے کہا تھا کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فوجی اہلکار کالے قانون آر مڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات سے تجاوز کررہے ہیں اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

بھارتی فورسز مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے مسلسل مہلک پیلٹ گنز کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں جسے سے لوگ شدید زخمی اوربصارت سے محروم ہو رہے ہیں۔ بھارت اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف پیلٹ گنز کا استعمال مسلسل استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں ذرائع ابلاغ پر قدغن کے حوالے سے ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہاکہ جون میں بھارتی انتظامیہ نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ایک نئی میڈیا پالیسی متعارف کرائی جس میں قابض حکام کوجعلی خبریں، سرقہ اور غیر اخلاقی یا ملک دشمن سرگرمیوں کا تعین کرنے اورمیڈیا گروپوں ، صحافیوں اور ایڈیٹرز کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بھارتی حکومت نے نقادوں، صحافیوں، اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر بھی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اگست2019سے مقبوضہ جموںوکشمیرمیں مواصلاتی نیٹ ورکس تک رسائی پرپابندی عائد ہے جس سے وادی کشمیر میں لوگوں کے روزگار خصوصا سیاحت کے شعبہ سے وابستہ افراد بری طرح متاثرہو رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کا حوالہ دیتے ہوئے کشمیری تاجروں کی مشکلات کواجاگر کیا۔ کشمیری تاجروں کو اگست2019کے بعد تین ماہ کے لاک ڈائون کے دوران تقریبا دو ارب چالیس کروڑ ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔

مارچ 2020میں بھارتی حکومت کی طرف سے کورونا وبا کی روک تھام کیلئے مزید پابندیاں نفاذ کی وجہ سے تاجروںکا نقصان دوگنا ہو گیا۔وبا کے دوران معلومات کے حصول،رابطے، تعلیم اور تجارت کیلئے انٹرنیٹ کی اہمیت بڑھ گئی اور بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے انٹرنیٹ تک رسائی کو بنیادی حق قرار دینے کے باوجود بھارتی حکومت نے مقبوضہ علاقے میںتیز رفتار فور جی انٹرنیٹ کی بجائے سست رفتار ٹو جی موبائل انٹرنیٹ سروس فراہم کی جس کے باعث مقبوضہ علاقے میں ڈاکٹروں، طلباء اور تاجروں کو شدید مشکلات کاسامناکرناپڑا۔

رپورٹ میں واضح کیاگیا ہے کہ مارچ میں بھارت بھر میں لاک ڈان کے ابتدائی ہفتوں میں بھارتی فورسز کئی ریاستوں میں کورونا وبا کی روک تھام کیلئے حاصل خصوصی اختیارات کا بے جا استعمال کرتے ہوئے اشیائے ضروریہ کے حصول کیلئے گھر وں سے باہر نکلنے والے لوگوں کو بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ مغربی بنگال میں پولیس نے مبینہ طور پر ایک 32 سالہ شخص کوتشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا جب وہ دودوھ لینے کیلئے گھر سے باہر نکلا۔ اتر پردیش کی ملنے والی ایک ویڈیو میں پولیس کو غیر ریاستی مزدوں پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دکھایاگیا ہے۔

متعدد ریاستوں میں پولیس نے لوگوں کولاک ڈائون کی خلا ف ورزی کرنے پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ بھارت میں پولیس کی حراست میں تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات بھی مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ سال کے پہلے دس ماہ کے دوران بھارتی انسانی حقوق کمیشن میںپولیس کی حراست میں 77ہلاکتوں، عدالتی تحویل میں ایک ہزار338ہلاکتوںاور62ماورائے عدالت قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

Comments are closed.