استثنیٰ نہیں ملے گا، نواز شریف سرنڈر کر کے 10 ستمبر کو پیش ہوں، اسلام آباد ہائیکورٹ

سردار عمران اعظم

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی پناما ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلوں میں پیشی سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی، عدالت نے نواز شریف کو سرنڈر کر کے 10 ستمبر کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت میں حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کے آغاز پر استفسار کیا کہ اس وقت نواز شریف کی حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ ضمانت پر ہیں یا نہیں؟

سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی میرٹ پر ضمانت منظور ہوئی، وہ علاج کیلیے بیرون ملک گئے واپس نہ آنے کی وجوہات درخواست میں لکھی، پنجاب حکومت نے نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ کیا ضمانت ختم ہونے کے بعد نواز شریف کو عدالت میں سرنڈر نہیں کرنا چاہیے تھا؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کا کیس منفرد ہے، عدالت سرنڈر نہ کرنے پر تفصیلی آگاہ کروں گا، نواز شریف کو جو بیماریاں تھیں اس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا، پنجاب حکومت نے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جس نے نواز شریف کی بیماری کا جائزہ لیا، نواز شریف اور شہباز شریف دونوں نے صحت یابی پر وطن واپسی کی ضمانت دی، عدالت نے استفسار کیا کہ اگر لاہور ہائیکورٹ نے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تو العزیزیہ کی سزا ختم ہوگئی؟

عدالت کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ کی سزا مختصر مدت کے لیے معطل کی، کیا لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے آرڈر کو ‘سپرسیڈ’ کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا حکم صرف نام ای سی ایل سے نام نکالنے کا تھا، پنجاب حکومت نے نواز شریف کی ضمانت مسترد کردی، اگر وفاقی حکومت کا بھی یہی موقف ہو تو پھرنواز شریف کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔

سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے تسلیم کیا کہ نواز شریف کے پاس اِس وقت کوئی ضمانت نہیں، تاہم نواز شریف کی صحت کو وفاقی حکومت نے ہائی کمیشن کے ذریعے چیک کرنا تھا، عدالت نے وفاق کی نمائندگی کرنے والے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کا نواز شریف کی صحت پر کیا موقف ہے ؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ انہیں کوئی ہدایات نہیں ملیں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نواز شریف کا علاج ہو رہا ہے یا نہیں ریکارڈ پر ایسی کوئی دستاویز نہیں، سابق وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا علاج جاری ہے جب علاج مکمل ہوگا واپس آئیں گے، نواز شریف جان بوجھ کر مفرور ہیں اس کا جائزہ وفاقی حکومت لے سکتی ہے، وفاقی حکومت نے نواز شریف کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ذمہ داری آپ کی ہے کہ آپ بتائیں نواز شریف کیوں مفرور ہیں ؟ انہیں اپیل کی سماعت کے لیے عدالت پیش ہونا پڑے گا، اگر نواز شریف مفرور ہیں تو انہیں الگ 3 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے، ٹرائل یا اپیل میں پیشی سے فرار ہونا بھی جرم ہے۔

بینچ میں شامل جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ اس بات پر دلائل دیں کہ نواز شریف کے بغیر اپیل کیسے سنی جاسکتی ہے؟ اگر نواز شریف جان بوجھ کر نہیں آتے پھر عدالت چاہے مفرور قرار دے، اگر ہم نواز شریف کو مفرور قرار دیں تو اپیل کی کیا حیثیت ہوگی؟

عدالت کی جانب سے نواز شریف کی ضمانت پر نیب سے دلائل طلب کیے گئے تو نیب پراسیکیوٹر نے نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ سابق وزیراعظم کی حاضری سے استثنی کی درخواست ناقابل سماعت ہے، جج ارشد ملک ویڈیو کی بھی نواز شریف نے درخواست دی تھی جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ فی الحال جج ارشد ملک ویڈیو پر دلائل نہ دیں پہلے حاضری سے استثنی پر دلائل دیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر نواز شریف مفرور ہوگئے تو عدالت نمائندہ مقرر کرسکتی ہے، نواز شریف مفرور ہونے کے بعد عدالت نیب کو سن کر میرٹ پر فیصلہ کرسکتی ہے، پنجاب حکومت کا نواز شریف کی ضمانت مسترد کرنے کا حکم نامہ کہیں چیلنج نہیں ہوا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سرنڈر کر کے 10 ستمبر کو ہر صورت عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ نواز شریف کو فی الحال مفرور قرار نہیں دے رہے، ان کی حاضری سے استثنی کی درخواست پر مناسب حکم جاری کریں گے۔عدالت نے وفاقی حکومت بھی اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کا کیس نواز شریف سے الگ کردیا۔

Comments are closed.