وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق دنیا کا رویہ مساویانہ نہیں مودی سرکار کے شہریت کے امتیازی قوانین کا مقصد مسلمانوں کو بھارت سے نکالنا ہے، عالمی برادری پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ کو روکے۔
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہا دنیا کو کووڈ 19 معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرے کی وجہ سے درپیش خطرات جیسے تین طرفہ چیلنج کا سامنا ہے، اللہ کے فضل و کرم سے اب تک پاکستان کووڈ کی وبا کو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہا ہے، تین طرفہ چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے نمبر پرویکسین کی یکساں دستیابی یعنی ہر جگہ، ہر شخص کوکووڈ کے خلاف ویکسین لگنی چاہئے اور جتنا جلدی ممکن ہو لگنی چا ہئے، دوسرا ترقی پذیر ملکوں کو مناسب فنانسنگ کی سہولت لازماً ملنی چا ہئے جسے قرضوں کی جامع ترتیبِ نو، او ڈی اے کا حجم بڑھانے اورغیر استعمال شدہ ایس ڈی آر کی دوبارہ تقسیم اور ایس ڈی آرز کا بڑا حصہ ترقی پذیر ملکوں کو الاٹ کر کے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے فنانسنگ کی سہولت فراہم کر کے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
اسلامو فوبیا کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا ایک اور ایسا خوفناک رجحان ہے جس کا ہم سب کو ملکر مقابلہ کرنا ہے، میں سیکرٹری جنرل سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اسلامو فوبیا کا تدارک کرنے کے لئے بین الاقوامی مکالمہ شروع کروائیں، اس وقت اسلامو فوبیا کی سب سے خوفناک اور بھیانک شکل بھارت میں پنجے گاڑھے ہوئے ہے، فاشسٹ آر ایس ایس، بی جے پی حکومت کی جانب سے پھیلائے گئے نفرت سے بھرے ہندوتوا نظریات نے بھارت میں بسنے والے 20 کروڑ مسلمانوں کے خلاف خوف اور تشدد کی ایک لہرجاری کر رکھی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ گاؤ ماتا کے جیالوں نے جتھوں کی صورت میں مسلمانوں کو قتل کرنا جاری رکھا ہوا ہے، وقفے وقفے سے منظم قتلِ عام کا سلسلہ جاری ہے، شہریت کے امتیازی قوانین جن کا مقصد بھارت کو مسلمانوں سے پاک کرنا ہے اور بھارت بھر میں مساجد کو شہید کرنے کی مہم اور اس کی اسلامی تاریخ اور ورثے کو مٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے پانچ اگست 2019 سے مسلسل یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات شروع کر رکھے ہیں، اس نے 9 لاکھ قابض فوج کے ذریعے خوف کی ایک لہر جاری کر رکھی ہے، میڈیا اور انٹر نیٹ پر پابندی لگا رکھی ہے، 13 ہزارہ کشمیریوں کو اغوا کر رکھا ہے جن میں سے سینکڑوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہوا ہے، اس نے جعلی پولیس مقابلوں میں سینکڑوں کشمیریوں کو قتل کیا ہے، اس نے اجتماعی سزائیں دینے کی روش اپنائی ہوئی ہے، جس میں پورے پورے گاؤں اور مضافاتی علاقے تباہ کر دئیے جاتے ہیں، حال ہی میں ہم نے اس حوالے سے ایک تفصیلی ڈوزئیز جاری کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی کارروائیاں اقوامِ متحدہ کی جموں و کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں، یہ بدقسمتی ہے کہ دنیا کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے رویہ مساویانہ نہیں ہے اور اکثر بڑی طاقتوں کو علاقائی سیاسی معاملات اور کاروباری مفادات مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے دوست ممالک کی خلاف ورزیوں سے صرفِ نظر کرجائیں، ایسے دہرے معیارات بھارت کے حوالے سے سب سے نمایاں ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارتی ظلم و جبر کی حالیہ مثال عظیم کشمیری رہنما سید علی شاہ گیلانی کے جسد خاکی کو ان کے خاندان سے زبردستی چھیننا ہے، ان کی خواہش اور اسلامی روایات کے مطابق باقاعدہ نماز جنازہ اور تدفین نہیں ہونے دی گئی، میں اس جنرل اسمبلی سے کہتا ہوں کہ وہ سید علی شاہ گیلانی کے جسد خاکی کی باقاعدہ اسلامی روایات کے مطابق شہدا کے قبرستان میں تدفین کا مطالبہ کرے۔
وزیراعظم نے کہا پاکستان اپنے دیگر ہمسائیوں کی طرح بھارت کے ساتھ بھی امن کا خواہش مند ہے، گزشتہ فروری میں ہم نے کنٹرول لائن پر جنگ بندی کے 2003 کے معاہدے کا اعادہ کیا۔ امید یہ تھی کہ اس سے دہلی میں حکمت عملی پر دوبارہ غوروخوض ہوگا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے کشمیر میں مظالم کی انتہا کر دی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اب یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے سازگار ماحول بنائے، یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ کو روکا جائے۔ بھارت کی فوجی تیاری، جدید جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور عدم استحکام پیدا کرنے والی روایتی صلاحیتوں کا حصول دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ ڈیٹرنس کو بے معنی کر سکتا ہے۔
آخر میں افغانستان پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا امریکا اور یورپ میں بعض سیاستدان پاکستان پر الزام تراشی کرتے رہے ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے میں چاہتا ہوں کہ سب جان لیں کہ جس ملک نے افغانستان کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے وہ پاکستان ہے جب ہم 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شامل ہوئے تھے، 80 ہزار پاکستانی مارے گئے اور ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، پاکستان میں 35 لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور یہ کیوں ہوا؟
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 80 کی دہائی میں افغانستان پر غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ میں پاکستان صف اول میں تھا۔ پاکستان اور امریکا نے افغانستان کی آزادی کیلئے مجاہدین کو تربیت دی، دنیا بھر سے مجاہدین گروپوں، اٖفغان مجاہدین اور القا عدہ کو ہیرو سمجھا جاتا تھا، صدر رونلڈ ریگن نے 1983 میں ان کو وائٹ ہاؤس میں دعوت دی، ایک نیوز رپورٹ کے مطابق انہوں نے ان کا موازنہ امریکا کے بانیوں کے ساتھ کیا۔
انہوں نے کہا اس وقت ساری عالمی برادری کو یہ سوچنا چاہئے کہ آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے۔ ہمارے پاس دوراستے ہیں اگر اس وقت ہم افغانستان کو پس پشت ڈال دیں گے تو اگلے سال تک افغانستان کے نوے فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے، غیر مستحکم اور بحران سے دوچار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا، آگے جانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم افغان عوام کی خاطر لازمی طور پر موجودہ حکومت کو مستحکم کریں، طالبان نے کیا وعدہ کیا تھا، وہ انسانی حقوق کا احترام کریں گے، وہ ایک مخلوط حکومت بنائیں گے، وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کو استعمال کرنے نہیں دیں گے اور انہوں نے معافی کا اعلان کیا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر اب عالمی برادری طالبان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان کے ساتھ بات چیت کرتی ہے تو یہ سب کیلئے کامیابی ہوگی، اگر دنیا اس سمت میں آگے بڑھنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو امریکا اتحاد کی افغانستان میں 20 سال کے دوران کی جانے والی کوششیں ضائع نہیں ہوں گی کیونکہ افغانستان کی سرزمین بین الاقوامی دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہوگی، میں سب پر زور دوں گا کہ یہ افغانستان کیلئے نازک وقت ہے ۔ آپ وقت ضائع نہیں کر سکتے، وہاں امداد کی ضرورت ہے، عالمی برادری کو اس مقصد کیلئے متحرک کریں۔
Comments are closed.