تحریر : (عمران اعظم) اس وقت ملک کے اندر جتنا فساد برپا ہے اس کی بڑی حصے دار اسٹیبلشمنٹ ہے، پراجیکٹ عمران فائر بیک کر گیا اور اس نے عسکری ادارے کو بھی تقسیم کر دیا، عمران خان کو بنایا اسٹیبلشمنٹ نے لیکن اب وہ ملک کا مقبول ترین لیڈر ہے، عمران خان کا بیانیہ جھوٹا ہو سکتا ہے، اس کے قول و فعل میں تضاد ہو سکتا ہے لیکن لوگ اس کیساتھ ہیں ۔
ایسے میں دوسری سیاسی جماعتوں کے پاس بھی آپشن کھلے ہیں کہ آپ اپنامتبادل بیانیہ پیش کرکے لوگوں کو اپنی جانب راغب کریں، عمران خان کی مقبولیت صرف اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت ہے، یہ بیانیہ اب پٹ چکا ہے،کیونکہ یہ واضح ہے کہ عمران خان پانچ سال پورے کرتے تو بے شک آرمی چیف جنرل فیض حمید ہی کیوں نہ ہوتے، عمران خان کا حال آج پی ڈی ایم سے کئی زیادہ برا ہوتا، اس وقت کی اپوزیشن نے اس خوف سے عمران خان کو پاپولر لیڈر بننے کا موقع فراہم کیا کہ جنرل فیض آرمی چیف بن گئے تو آئندہ پانچ سال بھی عمران خان کو مسلط کر دیا جائے گا۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ عمران خان جو کر رہا ہے، سو کر رہا ہے، پیپلز پارٹی یا نون لیگ کے ووٹ میں اضافہ کیوں نہیں ہو رہا؟ اور نئے رجسٹرڈ ووٹرز کا زیادہ نہیں تو 70 فیصد عمران خان کی جھولی میں کیوں گر رہا ہے، یہ کس کی نا اہلی ہے؟ یہ ووٹ بینک ہی ہے جو اس قدر ریاستی جبر کے باوجود پی ٹی آئی رہنماوں کو پارٹی سے راہیں جدائیں نہیں کرنے دے رہا، انہیں اب آڈیوز کا کوئی خوف رہا نہ ویڈیوزکا، انہوں نے ایک بار کہنا ہے کہ یہ جعلی اور ایڈیٹیڈ ہے تو کارکنان نے مان لینا ہے، عوام کا یہ ردعمل سیاسی جماعتوں سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے کہ بس اب بہت ہو چکا، خود کو سیاست سے الگ کر کے سیاستدانوں کو میدان میں اترنے دیں، لیکن جس طرح عسکری ادارے کا کھلم کھلا ردعمل سامنے آ رہا ہے اس سے یہ بھی عیاں ہو چکا کہ ادارہ ہر پانچ سال بعد ملک میں مرضی کی حکومت مسلط کرنے کے اختیار سے کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہیں ۔

عمران خان اس قدر سخت جان ثابت ہوں گے اور ان کے برگر بچے اس طور مزاحمت کریں گے ، اسٹیبلشمنٹ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا، عمران خان نے نہ صرف جنرل باجوہ کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ آئی ایس آئی کے سربراہ اور ماتحت افسران کو براہ راست نشانہ بنانے کی بھی روایت ڈالی، عمران خان کا لب ولہجہ بتا رہا تھا کہ وہ نئے آرمی چیف پر الزامات عائد کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور وہی ہوا، نئے آرمی چیف کی تعیناتی کیساتھ ہی وہ فوج میں فوری طور پر جن عہدوں پر تبدیلیوں کے خواہاں تھے وہ نہ ہونے پرالزامات کا نیا سلسلہ شروع کر دیا، اس کا ردعمل مختلف صورتوں میں آیا لیکن عمران خان پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے ، احتجاج مظاہروں میں مردوں کے شابہ بشانہ خواتین کی شرکت نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ تحریک کو بلاشہ نیا آہنگ دیا تو عمران خان بھی کارکنان کو متحرک رکھنے کے لیے ہر دن اسٹیبلشمنٹ پر نت نئے الزامات کی صورت مسلسل خوراک فراہم کرتے رہے، ملک کے اندر اور بیرون ملک شوشل میڈیا پر متحرک ترین کارکنان کی صورت میں عمران خان کے پاس ایسا کارگر ہتھیار ہے جس کا توڑا اسٹیلشمنٹ کے پاس بھی نہیں، پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اس قدر طاقتور نہ ہوتا تو عمران خان کی مزاحمت کے نتائج ہرصورت اس کے برعکس ہوتے۔

اس سب کے باوجود میرے تجزیے کے مطابق ہر سیر کا سوا سیر ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو عقل کوبروئے کار لاتے ہوئے زمینی حقائق سے ہم آہنگ متبادلہ بیانیہ عوام کے سامنے پیش کرنا ہو گا، کیا برا ہے اگر پیپلز پارٹی اپنی اساس اور مزاج کے مطابق سیاست کرے؟ کیا برا تھا جو قیمت عمران خان نے چکائی وہ پیپلز پارٹی چکانے تو تیار ہو جاتی؟ لیکن سیاست ہو یا نجی زندگی، جب آپ مفادات کی خاطر اصولوں پر سمجھوتا کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو پیچھے کھائی آنے پر بھی رکنا آپ کے اختیار میں نہیں رہتا۔
پی ڈی ایم جماعتوں کو سمجھنا ہو گا کہ اگر آپ کی کارکردگی بھی صفر ہو، آپ عوام کونچوڑ کر ملک چلا رہے ہوں، گرمیوں میں گیس کا بل جو 220 آتا تھا وہ یکدم آپ نے 5ہزار تک پہنچا دیا ہو، اور عذر یہ پیش کریں کہ ہم نے سردیوں میں آپ کو مہنگی ایل این جی دی اور پوری قیمت وصول نہیں کی تھی جو اب کی جارہی ہے، بجلی آپ اس بنیادپر 18روپے فی یونٹ چارج کریں کہ آپ نے چھ ماہ پہلے 200یونٹ جلائے تھے تو آپ ہرحلقے میں فوج کی پوری بریگیڈ لگا دیں، آپ الیکشن نہیں جیت سکیں..مہنگائی کا ستایا ہو آپ کا ہمدرد بھی نفرت اور غصے میں اندر جاکر ووٹ عمران خان کو دے آئے گا اور الیکشن چاہیے ایک سال بعد ہوں آپ سر میں خاک ڈالتے رہ جائیں گے۔
پیپلز پارٹی ہو یا نون لیگ، اس وقت دونوں ہی جماعتیں بلاول بھٹو یا مریم نواز کو مسند اقتدار پر بٹھانے کے لیے اس ملک کی عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے امیدیں لگائے بیٹھی ہیں، ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ غلط بھی نہیں، 2011سے پہلے اور بعد کا عمران خان اس کی زندہ مثال ہے، اپریل 2022 تک عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا لایا گیا وزیراعظم ضرور تھا لیکن اب وہ لیڈر بن چکا ہے جس نے اس شدت کیساتھ اسٹیبلشمنٹ کے خمیے میں بھونچال برپا کیا ہے کہ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی اور اس کی بنیاد صرف نوجوان ہیں جو کل رجسٹرڈ ووٹرز کا 44 فیصد ہیں، اب فیصلہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے کرنا ہے؟اسٹیبلشمنٹ یا نوجوان ووٹرز؟ دستک کہاں دینی ہے؟؟
Comments are closed.